السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جب عورت کا خاوند فوت ہو جائے اور وہ ہو بھی ملازمہ اس کا کوئی کفیل نہ ہو تو اس مجبوری کے پیش نظر وہ اپنی ملازمت پر جا سکتی ہے کتاب و سنت کی روشنی میں وضاحت کریں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جس عورت کا خاوند فوت ہو جائے تو اسے عدت اپنے اسی گھر میں گزارنی چاہیے جس میں وہ شوہر کی رفاقت کے وقت قیام پذیر تھی ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی بہن فریعہ بنت مالک سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ وہ بنی خدرہ میں اپنے اہل کے پاس چلی جائیں کیونکہ ان کے خاوند اپنے مفرور غلاموں کے پیچھے نکلے اور مقام قدوم (مدینہ سے چھ میل کے فاصلے پر) کے پاس جب وہ ان سے ملے تو انہوں نے ان کو قتل کر دیا اس وجہ سے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گزارش کی کہ مجھے اپنے اہل کے پاس جانے کی اجازت مرحمت فرمائیں اس لئے کہ شوہر نے مجھے ایسے گھر میں نہیں چھوڑا جس کے وہ مالک رہے ہوں اور نہ نفقہ ہی چھوڑا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے تو ہاں کر دی اور میں واپس ہو گئی یہاں تک کہ جب میں حجرہ یا مسجد میں پہنچی تو آپ نے مجھے بلایا اور کہا تو نے کیسے کہا میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پورا واقعہ دوبارہ سنایا اور اپنے شوہر کا حال ذکر کیا تو آپ نے فرمایا تم اپنے گھر میں ہی رہو یہاں تک کہ تمہاری عدت ختم ہو جائے وہ کہتی ہیں کہ پھر میں نے اس گھر میں چار ماہ دس دن عدت گزاری اور کہتی ہیں کہ جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا دور آیا تو انہوں نے مجھے بلوا کر اس بارے میں دریافت کیا میں نے انہیں بتایا تو اسی کے مطابق انہوں نے فیصلہ کیا اور اس کی پیروی کی۔ (ترمذی، کتاب الطلاق واللعان باب ما جاء این تعتد المتوفی عنہا زوجھا (1204) موطا مالک، احمد، ابوداؤد، ابن ماجہ، نسائی، دارمی وغیرھا)
امام ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے اور اسی حدیث کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اکثر اہل علم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم وغیرھم کا عمل ہے انہوں نے عدت گزارنے والی عورت کے لیے جائز نہیں رکھا کہ وہ اپنے شوہر کے گھر سے عدت پوری ہونے سے پہلے منتقل ہو۔
امام سفیان ثوری، امام شافعی، امام احمد، امام اسحاق بن راھویہ کا یہی موقف ہے اور بعض اہل علم صحابہ وغیرھم نے کہا کہ عورت جہاں چاہے عدت گزار لے اگر وہ اپنے خاوند کے گھر عدت نہ گزارنا چاہے۔ امام ترمذی فرماتے ہیں پہلی بات صحیح ترین ہے یعنی عورت اسی گھر میں عدت گزارے جہاں وہ اپنے شوہر کی رفاقت میں قیام پذیر تھی۔ (ترمذی مع تحفۃ الاحوذی 4/441،442)
موطا میں امام محمد نے بھی یہی موقف اختیار کیا ہے۔
البتہ بعض اہل علم نے کہا ہے کہ مجبوری کے تحت کام کاج کے لئے دن کے وقت گھر سے نکل سکتی ہے اور رات اسی گھر میں آ کر بسر کرے گی اس کے لئے انہوں نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میری خالہ کو طلاق دے دی گئی تو انہوں نے (اپنی عدت کے دوران) اپنے باغ کی کھجوریں اتارنے کا ارادہ کیا تو ایک شخص نے انہیں باہر نکلنے سے منع کیا اور ڈانٹا تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئیں آپ نے فرمایا: ہاں جاؤ اپنے درخت کی کھجوریں توڑو ممکن ہے کہ تم اس میں سے کچھ صدقہ کر دیا کرو اور نیکی کا کام کرو۔(صحیح مسلم، ابوداؤد، مسند احمد، نسائی، دارمی، ابن ماجہ وغیرھا)
ان کا کہنا ہے کہ آپ نے اس حدیث میں مطلقہ کو عدت کے دوران بوقت ضرورت گھر سے باہر نکلنے کی اجازت دی ہے لہذا وفات کی عدت والی عورت کو اسی پر قیاس کیا جائے گا۔ اس کی تائید مجاہد تابعی کے اس اثر سے بھی ہوتی ہے کہ اُحد کے دن بہت سے لوگ شہید ہو گئے۔ ان کی عورتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئیں اور کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم رات کے وقت وحشت محسوس کرتی ہیں اس لئے چاہتی ہیں کہ کسی دوسری عورت کے ہاں رات بسر کر لیں یہاں تک کہ جب ہم صبح کریں تو اپنے گھروں کو جلدی سے آ جائیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم جس کسی کے ہاں چاہو بات چیت کرو اور جب سونا چاہو تو ہر عورت اپنے اپنے گھر چلی جائے۔ (بیہقی 5/436)
لہذا معلوم ہوتا ہے کہ عورت بوقت مجبوری کام کاج کی غرض سے گھر سے باہر نکل سکتی ہے اور رات اپنے گھر میں ہی بسر کرے گی۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب