سوال: السلام علیکم کیا ہم اہل حدیث امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ،مالک رحمہ اللہ ،شافعی رحمہ اللہ ،اور حنبلی رحمہ اللہ کے فتوے پر عمل کر سکتے ہے،؟ ہم یہ تو جانتے ہے کی کئی مسلے حنفیوں کے قرآن اور حدیث کے خلاف ہے اور ٹکراتے ہے، کیا ہم ایسے اختلافی مسلے کو چھوڑ کر دو
جواب: اہل سنت والجماعت میں فقہ اسلامی میں فقہا دو مختلف مناہج پر ہیں۔ ایک منہج اہل الحدیث کا ہے کہ جس کے امام، امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل اور محدثین عظام ہیں۔ دوسرا منہج اہل الرائے کا ہے کہ جس کے امام، امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ہیں۔ پس ائمہ ثلاثہ امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ تو اہل الحدیث ہی کے امام ہیں اور اگر کسی مسئلہ میں معاصر اہل حدیث اہل علم کی رائے موجود نہ ہو تو ان ائمہ کی آراء پر عمل کیا جا سکتا ہے۔ معاصر اہل علم کو ترجیح اس لیے دیں کہ اہل الحدیث کے نزدیک فاسئلوا اھل الذکر میں اصل مخاطب معاصر اہل علم ہی ہیں اور انہی سے سوال کیا جائے گا اور معاصر اہل علم کوئی فتوی دینے سے پہلے کتاب وسنت کے ساتھ ساتھ ان کبار اہل الحدیث اہل علم ائمہ ثلاثہ اور محدثین عظام کے اجتہادات اور علمی آراء کو بھی ملحوظ رکھتے ہیں۔ جہاں تک امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے فتوی پر عمل کرنے کا معاملہ ہے تو اہل الحدیث کو اگر کسی مسئلہ میں معاصر اہل الحدیث کی رائے نہ مل سکے۔ یا ائمہ ثلاثہ اور محدثین عظام اور ان کے متبعین میں سے کسی امام کی رائے نہ ملے۔ تو وہ اس مسئلہ میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے فتوی پر عمل کر سکتا ہے۔ ائمہ ثلاثہ، محدثین عظام اور ان کے متبعین امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ وغیرہ کو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ پر ترجیح دینی کی وجہ یہ ہے کہ حدیث وسنت کے معاملہ میں ائمہ ثلاثہ اور ان ائمہ کا منہج ہی اہل الحدیث کا منہج ہے جبکہ اہل الرائے کے منہج حدیث وسنت سے ائمہ ثلاثہ، محدثین عظام اور ان کے متبعین اہل الحدیث کو اتفاق نہیں ہے۔