السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک آدمی نے اپنی اہلیہ کو طلاق دے دی جب شوہر سے کہا گیا کہ تم نے اپنی اہلیہ کو طلاق دی ہے تو وہ کہتا ہے کہ مجھے غصہ کی وجہ سے کچھ یاد نہیں ہے اور بیوی بھی کہتی ہے کہ میں اس وقت بے ہوش تھی مجھے پتہ نہیں اس نے کیا کہا۔ شوہر حلفیہ بیان دینے کو تیار ہے کہ اس کے ہوش و حواس حاضر نہ تھے اور غصہ میں پتہ نہیں کیا کہا ہے کیا ایسے وقت میں طلاق ہو جاتی ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اگر شوہر کا یہ بیان درست ہے اور وہ حلف دیتا ہے کہ اس نے غصہ میں پتہ نہیں کیا کہا ہے تو ایسی صورت میں طلاق واقع نہیں ہوتی اسے اصطلاح فقہاء میں "طلاق الغضبان" کہتے ہیں اس کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے "لا طلاق ولا عتاق في إغلاق" یعنی اغلاق کی حالت میں نہ طلاق اور نہ ہی غلام و لونڈی کا آزاد کرنا۔ (مسند احمد 6/256 ابوداؤد 2193 ابن ماجہ، ابن ابی شیبہ، دارقطنی، حاکم، بیہقی)
امام ابوداؤد اغلاق کے متعلق فرماتے ہیں کہ میں سمجھتا ہوں اس سے مراد غصہ ہے اور امام احمد کا بھی یہی قول ہے امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں اغلاق کی حقیقت یہ ہے کہ آدمی کا دل اس طرح معلق ہو جائے کہ وہ کلام کا علم و ارادہ نہ کر سکے اس میں مکرہ، مجنون اور جس کی عقل نشہ یا غصے کی وجہ سے زائل ہو چکی ہو سب کی طلاق داخل ہے جو مقصد و ارادہ کھو بیٹھیں اور ہوش نہ ہو اور یہ نہ سمجھ سکیں کہ ان کی زبان سے کیا نکلا ہے اور امام ابن القیم نے فرمایا کہ غصہ کی تین قسمیں ہیں ایک وہ غصہ جو عقل کو زائل کر دے اور غصے والے کو یہ شعور نہ ہو کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ ایسے شخص کی طلاق بلا اختلاف واقع نہیں ہو گی۔ (زاد المعاد 5/214)
لہذا اگر بات واقعی اس طرح ہے جیسے شوہر حلفا کہتا ہے تو طلاق واقع نہیں ہوتی۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب