السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اگر لڑکی نے قرآن مجید حفظ کیا اور کتب ستہ پڑھی ہوں اور لڑکا ان پڑھ اور جاہل ہو لڑکی رشتہ پر رضامند نہ ہو والدین زبردستی نکاح کرنا چاہیں تو کیا زبردستی کرنا شرعی طور پر درست ہے۔ (اخت اسلامیہ)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جس طرح شریعت میں نکاح کے طے کرتے وقت ولی کا ہونا از حد ضروری ہے اسی طرح لڑکی کی رضامندی حاصل کرنا بھی ضروری ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیوہ عورت کا نکاح اس کا امر حاصل کئے بغیر نہ کیا جائے اور کنواری لڑکی کا نکاح اس کی اجازت حاصل کئے بغیر نہ کیا جائے آپ سے کہا گیا اس کا اذان کیا ہے آپ نے فرمایا چپ رہنا اس کا اذن اور اجازت ہے۔ (بخاری و مسلم وغیرھما)
اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ کنواری بالغہ لڑکی کا نکاح اس کی اجازت حاصل کر کے کیا جائے اور بیوہ یا مطلقہ کا نکاح اس کے امر سے کیا جائے۔ ایک حدیث میں ہے کہ ایک کنواری لڑکی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہا کہ اس کے باپ نے اس کا نکاح کر دیا ہے اور وہ اسے ناپسند کرتی ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اختیار دے دیا۔(ابوداؤد 2096 صحیح ابن ماجہ 2/127)
اس حدیث کی شرح میں علامہ احمد حسن دھلوی فرماتے ہیں یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ باپ کے لئے حرام ہے کہ وہ اپنی کنواری بیٹی کو نکاح پر مجبور کرے تو باپ کے علاوہ لڑکی کے اولیاء اور دیگر قریبی رشتہ داروں کے جبر اور سختی کرنے کی بالاولیٰ ممانعت ثابت ہوتی ہے۔ (تنقیح الدواۃ 3/10)
لہذا والدین کو ایک تو چاہیے کہ اپنی دیندار بچیوں کے لئے دیندار رشتوں کا انتخاب کریں اور دوسرے نمبر پر اپنی بالغ اولاد سے نکاح پر اجازت بھی حاصل کریں زبردستی نکاح کرنے سے گریز کریں زبردستی کا کیا ہوا نکاح بعد میں اکثر و بیشتر والدین کے لئے پریشانی کا سبب بن جاتا ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب