سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(245) ولی کی اجازت کے بغیر نکاح

  • 22678
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1012

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا ولی کی اجازت کے بغیر نکاح ہو سکتا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

الجواب بعون الوهاب ومنه الصدق والصواب واليه المرجع والماب  شریعت اسلامیہ میں نکاح کی شرائط میں سے عورت کے لئے ولی کا ہونا ضروری ہے اس پر کئی ایک آیات قرآنیہ اور احادیث نبویہ شاہد ہیں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَلا تُنكِحُوا المُشرِكينَ حَتّىٰ يُؤمِنوا وَلَعَبدٌ مُؤمِنٌ خَيرٌ مِن مُشرِكٍ وَلَو أَعجَبَكُم ... ﴿٢٢١﴾... سورة البقرة

"اور مشرکین کو نکاح کر کے نہ دو یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں البتہ غلام مومن مشرک سے بہتر ہے اگرچہ وہ تمہیں اچھا لگے"۔

اس آیت کریمہ کے تحت امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

(فى هذه الآية دليل بالنص على أن لا نكاح إلا بولى)(تفسیر قرطبی 3/49)

یہ آیت اس بارے میں دلیل ہے کہ ولی کے بغیر نکاح نہیں۔ مشہور حنفی عالم مولانا عبدالماجد دریا آبادی لکھتے ہیں (لَا تُنكِحُوا) خطاب مردوں سے ہے کہ تم اپنی عورتوں کو کافروں کے نکاح میں نہ دو حکم خود عورتوں کو براہ راست نہیں مل رہا ہے کہ تم کافروں کے نکاح میں نہ جاؤ یہ طرز خطاب بہت پر معنی ہے صاف اس پر دلالت کر رہا ہے کہ مسلمان عورت کا نکاح مردوں کے واسطے سے ہونا چاہیے۔ (تفسیر ماجدی 75) ایک اور مقام پر ارشاد الٰہی ہے:

﴿وَإِذا طَلَّقتُمُ النِّساءَ فَبَلَغنَ أَجَلَهُنَّ فَلا تَعضُلوهُنَّ أَن يَنكِحنَ أَزو‌ٰجَهُنَّ إِذا تَر‌ٰضَوا بَينَهُم بِالمَعروفِ ... ﴿٢٣٢﴾... سورة البقرة

"اور جب تم عورتوں کو طلاق دے دو اور وہ اپنی عدت پوری کر چکیں تو انہیں ان کے خاوندوں سے نکاح کرنے سے نہ روکو جب وہ آپس میں اچھے طریقے سے راضی ہو جائیں۔

یہ آیت کریمہ اس وقت نازل ہوئی جب معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کی ہمشیرہ کو ایک طلاق ہو گئی اور ان کی عدت گزر گئی عدت کے گزر جانے کے بعد ان کا آپس میں صلح کا ارادہ بن گیا تو معقل رضی اللہ عنہ جو اپنی بہن کے ولی تھے وہ اس میں رکاوٹ بن گئے۔ حافظ ابن حجر اس کے متعلق فرماتے ہیں:

وهي أصرح دليل على اعتبار الولي وإلا لما كان لعضله معنى ولأنها لو كان لها أن تزوج ونفسها لم تحتج إلى أخيها(فتح الباری 9/94)

یہ آیت ولی کے معتبر ہونے پر سب سے زیادہ واضح دلیل ہے۔ اور اگر ولی کا اعتبار نہ ہوتا تو اس کے روکنے کا کوئی معنی باقی نہیں رہتا اور اگر عورت کے لیے اپنا نکاح خود کرنا جائز ہوتا تو وہ اپنے بھائی کی محتاج نہ ہوتی۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

تفہیمِ دین

کتاب النکاح،صفحہ:320

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ