سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(238) وٹہ سٹہ کی شادی

  • 22671
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-01
  • مشاہدات : 1220

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اسلام میں وٹہ سٹہ کی شادی کا کیا تصور ہے اگر طرفین سے عام حالات میں رضا مندی کے ساتھ وٹہ سٹہ کی شادی ہو جائے تو پھر بھی یہ سلسلہ شریعت کی گرفت میں ہے؟ (کارکنان جماعت الدعوۃ موضع جوڑا ضلع قصور)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

وٹہ سٹہ کی شادی کو شریعت میں شغار کہا جاتا ہے شغار کی ممانعت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لا شغار فى الإسلام اسلام میں شغار نہیں ہے۔(صحیح مسلم کتاب النکاح باب تحریم نکاح الشغار و بطلانہ 1415)

شغار کی ممانعت والی حدیث ابوہریرہ، انس بن مالک، عمران بن حصین، جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم سے کتب احادیث میں مروی ہے اور شغار کا مفہوم یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی بیٹی یا بہن یا اپنی زیر ولایت کسی بھی لڑکی کی شادی اس شرط پر کرے کہ دوسرا آدمی اپنی بیٹی یا بہن یا اپنی زیر ولایت لڑکی کا نکاح اس کے کسی فرد سے کر دے اور یہ شرط شرعی طور پر درست نہیں کیونکہ نکاح کے بارے میں شریعت میں ایسی کوئی شرط موجود نہیں، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ " كل شرط ليس فى كتاب الله فهو باطل " ہر وہ شرط جو کتاب اللہ میں نہیں وہ باطل ہے (صحیح البخاری کتاب البیوع 2168 صحیح مسلم کتاب العتق 1504)

امام ابن حزم نے محلی 9/118 میں لکھا ہے کہ وٹہ سٹہ کا نکاح حلال نہیں ہے اور وٹہ سٹہ یہ ہے کہ ایک آدمی دوسرے آدمی کی زیر ولایت لڑکی سے اس شرط پر شادی کرے کہ وہ دوسرا آدمی اپنی زیر ولایت لڑکی کو اس طرح اس کے ساتھ بیاہ دے کہ اس میں کوئی فرق نہیں کہ انہوں نے دونوں میں سے ہر ایک کے لیے مہر ذکر کیا ہو یا ایک کا مہر ذکر کیا ہو دوسری کا نہ کیا ہو یا دونوں میں سے کسی کا بھی حق مہر ذکر نہ کیا ہو یہ تمام صورتیں برابر ہیں۔ ایک حدیث میں ہے کہ عباس بن عبداللہ بن عباس نے عبدالرحمٰن بن الحکم کو اپنی بیٹی نکاح میں دی اور عبدالرحمین بن الحکم نے عباس کو اپنی بیٹی نکاح میں دے دی اور ان دونوں نے مہر بھی مقرر کیا تو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے (امیر مدینہ) مروان کو خط لکھ کر حکم دیا کہ دونوں نکاحوں میں جدائی کر دی جائے اور اپنے خط میں لکھا کہ یہی وہ شغار ہے جس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا تھا۔(سنن ابی داؤد کتاب النکاح باب فی الشغار 2075 مسند احمد 4/94)

امام ابن حزم رحمۃ اللہ اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں یہ معاویہ رضی اللہ عنہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی موجودگی میں اس نکاح شغار کو فسخ کرتے ہیں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کوئی بھی ان کی مخالفت کرنے والا نہیں ہے اگرچہ اس میں دونوں نے مہر کا ذکر بھی کیا ہے تو انہوں نے نکاح کو فسخ کر دیا اور معاویہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں یہ وہ نکاح ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا ہے اس سے تمام اشکال رفع ہو جاتے ہیں۔ (المحلی 9/122)

لہذا وٹہ سٹہ کی شادی جو مشروط طور پر سر انجام دی جاتی ہے وہ شرعی طور پر درست نہیں خواہ اس میں مہر رکھا گیا ہو یا نہ رکھا گیا ہو یہ اتفاقی چیز ہے ایسے نکاح سے اجتناب کرنا چاہیے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

تفہیمِ دین

کتاب النکاح،صفحہ:311

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ