سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(227) کیا فی سبیل اللہ سے مراد جہاد ہے؟

  • 22660
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 2361

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

سورۃ توبہ میں "فی سبیل اللہ" کی مدد جو ذکر کی گئی ہے اس سے کیا مراد ہے کیا اس میں دینی ادارے کا قیام و عمارت شامل ہے یا نہیں یعنی یہ اصطلاح عام ہے یا خاص۔ (عبدالرحمٰن، کہروڑ پکا)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سورۃ توبہ کی اس آیت میں مصارف صدقات بیان کرتے ہوئے ایک مصرف "فی سبیل اللہ" ذکر کیا ہے یہاں پر فی سبیل اللہ خاص اصطلاح ہے جو کہ باقی سات کے مقابلے میں استعمال کی گئی ہے اگر اسے عام سمجھا جائے تو فقراء و مساکین وغیرہ کو علیحدہ ذکر کرنے کی حاجت نہ تھی وہ سب بھی فی سبیل اللہ ہیں۔ کتاب و سنت میں فی سبیل اللہ عام معنی میں بھی آیا ہے جس سے مراد اسلام اور اللہ کی رضا والا راستہ ہے یا پھر خاص اصطلاح فی سبیل اللہ ہے جو کہ جہاد کے لئے ہے مذکورہ آیت میں یہاں اس سے مراد جہاد فی سبیل اللہ ہے جیسے کہ خود قرآن حکیم نے سورۃ البقرہ آیت نمبر 54 میں فرمایا صدقات ان فقراء کے لئے ہیں جو اللہ کی راہ (یعنی جہاد) میں روکے گئے اسی طرح ﴿وَأَنفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ ﴾۔۔۔ سورۃ البقرۃ  اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔

اس میں انفاق فی سبیل اللہ جہاد کے لئے ہے جیسا کہ ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے وضاحت کی ہے ملاحظہ ہو (ابوداؤد، ترمذی، نسائی وغیرہ)

اور کئی ایک مفسرین نے بھی یہاں سے جہاد و قتال ہی مراد لیا ہے امام قرطبی نے اپنی تفسیر "الجامع لاحکام القرآن" میں فرمایا ہے اس سے مراد لڑنے والے غازیان ہیں اور اکثر علماء کا یہی قول ہے اور امام مالک کے مذہب کا حاصل بھی یہی ہے۔ مشہور درسی کتاب "بدایۃ المجتہد" میں فی سبیل اللہ سے مراد جہاد اور رباط کو امام مالک، امام ابو حنیفہ اور امام شافعی کا مذہب بتایا گیا ہے۔ مزید تفصیل کے لئے دیکھیں "احکام زکوٰۃ و عشر" از حافظ عبدالسلام بھٹوی صاحب اور "مسائل عشر پر تحقیقی نظر" از مفتی عبدالرحمٰن الرحمانی صاحب، حافظ عبدالسلام فرماتے ہیں: خلاصہ یہ کہ فی سبیل اللہ دین کی سربلندی کے لئے جہاد و قتال کرنے والے لوگ ہیں اس میں وہ تمام لوگ شامل ہیں جو کسی طرح بھی دنیا میں اسلام کو غالب اور کفر کو مغلوب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں خواہ وہ دلیل و برھان کے ساتھ ہو یا ہاتھ اور زبان کے ساتھ البتہ اس مد کا اولین مصداق وہی لوگ ہیں جو کفار سے لڑائی میں مصروف ہیں یا کفار کے خلاف لڑائی کے کسی بھی شعبہ میں شریک ہیں۔ (احکام زکوٰہ و عشر ص 43)

البتہ یاد رہے کہ مدارس و مساجد یا دیگر اسلام کی سر بلندی کے جو ادارے ہیں ان پر بھی اپنے اموال میں سے ضرور خرچ کرنا چاہئے تاکہ یہاں سے حفاظ، علماء وغیرہ تیار ہو کر نکلیں اور دین اسلام کی سر بلندی کے لئے کام کریں مجاہدین کے کمانڈرز، اساتذہ کی کثیر تعداد انہیں مدارس سے ہی پیدا ہوئی ہے اس لئے ان کے حقوق کا بھی لحاظ رکھنا چاہیے۔ صدقات کے جو مصارف اللہ نے بیان کئے ہیں ان سب میں بقدر ضرورت حصہ ڈالنا چاہیے مگر حالات کے مطابق جس مد میں زیادہ ضرورت ہو اس کا زیادہ خیال رکھیں اللہ تعالیٰ ہمیں امور خیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی توفیق بخشے۔ آمین

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

تفہیمِ دین

کتاب الجہاد،صفحہ:291

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ