سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(226) مسلمانوں سے لڑائی نہ کرنے والے کافروں سے سلوک

  • 22659
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 872

سوال

(226) مسلمانوں سے لڑائی نہ کرنے والے کافروں سے سلوک

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا جو کفار مسلمانوں سے لڑائی نہیں کرتے ان سے انصاف کا سلوک کر سکتے ہیں؟ (ابو الجہاد، ملتان)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جو لوگ مسلمانوں سے ان کے دین کے متعلق جنگ نہیں کرتے اور نہ ہی انہوں نے مسلمانوں کو ان کے گھروں سے نکالا ہو ان کے ساتھ بھلائی و انصار کا سلوک کرنے سے شریعت مانع نہیں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں قتال نہیں کیا اور نہ تم کو تمہارے گھروں سے نکالا ان سے بھلائی اور انصاف کا سلوک کرنے سے اللہ تم کو منع نہیں کرتا، اللہ تعالیٰ تو انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔" (الممتحنہ: 8)

البتہ جو کفار مسلمانوں کے خلاف دین اسلام کے بارے میں جنگ چھیڑیں، انہیں ایذا پہنچائیں، ان کے بچوں، اہل و عیال، بوڑھے جوانوں کا قتل عام کریں اور انہیں ان کے گھروں سے نکلنے پر مجبور کر دیں بلکہ کئی ایک اسلامی حکومتیں انہوں نے ختم کر دیں اور دن رات ان کی کوشش امت مسلمہ کے خاتمہ کی ہو ان سے لڑائی کرنا فرض ہے تاکہ دین اسلام کا غلبہ جو مقصود و مطلوب ہے حاصل کر لیا جائے اللہ تعالیٰ نے سورہ ممتحنہ کی اگلی آیت میں فرمایا ہے "اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے دوستی کرنے سے منع کرتا ہے جو تم سے دین کے بارے میں لڑائی کرتے ہیں اور انہوں نے تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا اور تمہارے نکالنے میں اوروں کی مدد کی تو جو لوگ ایسے لوگوں سے دوستی کرتے ہیں وہی ظالم ہیں۔"

اس آیت مجیدہ سے یہ بات عیاں ہو گئی جو کفار مسلمانوں سے ان کے دین کے بارے میں جنگ کریں انہیں گھروں سے نکالیں یا نکالنے پر کسی دوسری قوم کی مدد کریں ان سے دوستی و تعاون کا ہاتھ بڑھانے والا ظالم ہے لہذا امریکہ، برطانیہ وغیرہ جیسے بلاد کفار جنہوں نے صلیبی جنگ چھیڑ رکھی ہے اور لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام کیا اور انہیں ان کے گھروں سے نکالا، ان پر آتش کی بارش کر دی ان سے لڑنا فرض عین ہے اور ان سے دوستی کرنا ظلم ہے جو ایسے کفار سے دوستی کرتا ہے اور ان کا تعاون کرتا ہے وہ انہیں جیسا ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

تفہیمِ دین

کتاب الجہاد،صفحہ:290

محدث فتویٰ

تبصرے