السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
پچھلے دنوں دلجوت کی کاروائی میں کافر مسلمانوں کی گردنیں کاٹ کر ساتھ لے گئے اس کے جواب میں ہمارے ساتھیوں نے بھی انڈین آرمی کی گردنیں کاٹیں پاکستان آرمی کے کرنل نے کہا یہ مسئلہ ہے اور شرعی طور پر ٹھیک نہیں ہے آپ اس کو شرعی طور پر ثابت کریں ورنہ جرمانہ ہو گا۔ (ابو عادل)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
کفار کے ساتھ میدان قتال میں سختی کا حکم دیا گیا ہے حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
﴿فَاضرِبوا فَوقَ الأَعناقِ وَاضرِبوا مِنهُم كُلَّ بَنانٍ ﴿١٢﴾... سورة الانفال
"پس تم ان کفار کی گردنوں پر مارو اور ان کے جوڑ جوڑ پر مارو۔"
اس آیت کریمہ میں مجاہدین کو شجاعت اور پامردی سے لڑنے کا کہا جا رہا ہے اور حکم دیا جا رہا ہے کہ میدان کارزار میں جب کفار کا سامنا ہو تو ان کی گردنوں پر مارو اور ان کے ہاتھوں اور پاؤں کے جوڑ جوڑ پر مارو تاکہ وہ لڑنے کے قابل نہ رہیں۔ معلوم ہوا کہ کفار کی گردنیں کاٹنا بالکل درست اور جائز ہے اور کتب احادیث و تواریخ میں بے شمار واقعات کفار کی گردنیں کاٹنے کے موجود ہیں۔ صحیح البخاری کتاب المغازی باب قصۃ عکل و عرینۃ میں واقعہ موجود ہے کہ قبیلہ عکل اور عرینہ کے لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چرواہے کو قتل کر دیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی آنکھوں میں گرم لوہے کی سلائیاں پھیر دینے اور ہاتھ پیر کاٹنے کا حکم دیا۔ اسی طرح اسلامی تعلیمات میں قصاص کے اندر قتل کرنا، نفس کے بدلے نفس، آنکھ کے بدلے آنکھ، کان کے بدلے کان وغیرہ کاٹنے کا حکم دیا ہے۔ کفار مسلمانوں کے مقابلے میں جب میدان میں اتر آئیں تو ان کو قتل کرنا، گردنیں مارنا، ہاتھ پاؤں کاٹ ڈالنا، جوڑ جوڑ پر ضربیں لگانا درست و جائز ہے تفصیل بڑی کتابوں میں موجود ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب