سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(224) میدانِ جہاد میں کفار و مشرکین سے مدد لینا

  • 22657
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 2404

سوال

(224) میدانِ جہاد میں کفار و مشرکین سے مدد لینا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا میدان جہاد میں کفار و مشرکین سے مدد لینا جائز ہے، بعض لوگ کہتے ہیں کہ جنگ بدر میں ایک مشرک آپ کی مدد کے لئے آیا تو آپ نے فرمایا " ارجع فلن أستعين بمشرك " لوٹ جاؤ میں مشرک سے ہرگز مدد نہیں لوں گا، تو کیا واقعی یہ درست ہے کہ کفار و مشرکین سے تعاون لینا درست نہیں، کتاب و سنت کی رو سے واضح کریں۔ (عبیداللہ طاہر مہر فاروقہ، سرگودھا)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

علماء محدثین رحمہم اللہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مسلمان جب کفار کی طرف سے مطمئن نہ ہوں اور یہ ڈر لاحق ہو کہ یہ لوگ ہمارے دشمنوں کے لئے ہمارے راز افشاء کر دیں گے اور ہماری قوت کو کمزور کر دیں گے تو ایسی صورت میں کفار و مشرکین سے استعانت نہیں لی جائے گی۔ کیونکہ ایسی حالت میں استعانت مقصود و مطلوب کی نقیض ہو گی۔ ایسے کفار جن پر اعتماد نہ ہو انہیں بالخصوص لشکروں کی تیاری میں، خندقیں اور سرنگیں کھودنے میں، قلعے اور بنکرز تعمیر میں، راستوں کی ہمواری اور اصلاح آلات و حرب میں ساتھ ملانا موت کی دعوت دینے کے مترادف ہے۔ البتہ اگر کسی کافر و مشرک پر اعتماد ہو اور وہ جنگ میں ہمارا حلیف ہو اور دوسرے کفار کے خلاف اور نصرت اسلام کے لیے اس کی مدد کی حاجت ہو تو اس وقت اس سے تعاون لینا راجح موقف کی رو سے درست ہے۔ یہ تعاون خواہ آلات حرب کی صورت میں ہو یا مال و متاع کی شکل میں، افرادی قوت ہو یا راستے کے لئے گائیڈز ہوں اس میں کوئی قباحت نہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کا مطالعہ کرنے والوں پر مخفی نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی مدد بہت سے مواقع پر کفار سے کروائی ہے۔ یہاں پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں سے بعض واقعات درج ذیل ہیں جن میں کفار سے حسب ضرورت تعاون لیا گیا ہے۔

(1) جب قریش نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معاملہ بڑھتا ہوا دیکھا اور محسوس کیا کہ لوگ دن بدن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حلقہ بگوش ہو رہے ہیں تو انہوں نے آپ کا بائیکاٹ کیا اور آپ شعب ابی طالب میں محصور ہو گئے۔ اس وقت بنو ہاشم اور بنو المطلب نے آپ کا ساتھ دیا اور آپ کی حمایت و نصرت میں وہ بھی شعب ابی طالب میں آپ کے ساتھ تھے۔ (زاد المعاد 3/30 سیرۃ ابن ہشام 1/175 السیرۃ لابن کثیر 2/34)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر نہیں فرمایا کہ بنو ہاشم اور بنو المطلب چلے جاؤ مجھے تمہاری حمایت و نصرت کی کوئی حاجت نہیں۔

(2) پھر جب شعب ابی طالب کا حصار ختم ہوا ابو طالب اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا فوت ہو گئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی قوم کے بے وقوف لوگوں کی جانب سے آفات و بلیات کی شدت ہوئی اور انہوں نے آپ کو تکالیف و مصائب سے دوچار کیا تو آپ طائف کے کافروں کی طرف نکل گئے تاکہ وہ آپ کی نصرت کے لیے آپ کی حمایت کریں اور آپ کو جگہ دیں۔ (زاد المعاد 3/31)

(3) پھر جب وہاں سے امداد نہ ملی تو مکہ کی جانب آپ مقہور و محزون ہو کر واپس پلٹے اور نخلہ میں چند دن قیام کیا تو زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا آپ کفار مکہ کے ہاں کیسے داخل ہوں گے انہوں نے تو آپ کو نکال دیا ہوا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے زید جو حالات تم دیکھ رہے ہو اللہ تعالیٰ ان سے نکلنے کے لئے کوئی راستہ بنا دے گا اور اپنے دین کی مدد کرے گا اور اپنے نبی کو غلبہ دے گا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کے قریب ہوئے تو بنو خزاعہ قبیلے کے ایک کافر مطعم بن عدی کے پاس پیغام بھیجا اور کہا کیا میں تیرے پڑوس میں داخل ہو سکتا ہوں اس نے کہا ہاں اس نے اپنے بیٹوں اور قوم کو آواز دی اور کہا اسلحہ پہن لو اور بیت اللہ کے ارکان کے پاس جاؤ اور زبان سے کہہ رہا تھا میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پناہ دی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ داخل ہوئے یہاں تک کہ جب مسجد حرام کے قریب پہنچے تو مطعم بن عدی اپنی سواری پر کھڑا ہو گیا اس نے بلند آواز سے کہا اے قریش کے لوگو! میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پناہ دی ہے تم میں سے کوئی شخص بھی انہیں نقصان نہ پہنچائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رکن کے قریب ہوئے اس کا استلام کیا اور دو رکعت نماز ادا کی اور اپنے گھر چلے گئے۔ مطعم اور اس کے بیٹوں کے اسلحے کی چھاؤں میں آپ اپنے گھر میں داخل ہوئے۔ (زاد المعاد 3/31،34 السیرۃ النبویۃ لابن کثیر 2/103،104) اس لئے آپ نے بدر کے قیدیوں کے بارے میں کہا تھا اگر مطعم زندہ ہوتا پھر وہ ان بدبودار لوگوں کے لئے مجھے کہتا میں اس کے لئے انہیں چھوڑ دیتا۔ (صحیح البخاری کتاب فرض الخمس 3139)

(4) جب قریش نے اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت ایذا دی تو آپ نے انہیں حبشہ کی طرف ہجرت کا حکم دیا تاکہ انہیں اس کافر حکومت کی جانب سے حمایت نصیب ہو جائے اس وقت نجاشی مسلمان نہیں ہوا تھا۔

(5) اسی طرح آپ کا مشرک چچا ابو طالب جس نے مرتے دم تک کلمہ طیبہ نہیں پڑھا تھا اس کی حمایت و نصرت آپ کو حاصل رہی۔

(6) ہجرت مدینہ سے پہلے ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ایام ہائے مصائب میں ابن الدغنہ کافر کی پناہ لی۔ (صحیح البخاری کتاب مناقب الانصار 3905)

(7) جب آپ نے مکہ سے مدینہ ہجرت کی تو عبداللہ بن اریقط الدیلی جو مشرک تھا اور راستوں کا بڑا ماہر تھا اسے راستہ بتانے کے لئے اجرت پر رکھ لیا۔(صحیح البخاری کتاب مناقب الانصار 3905)

اس میں بھی اس بات کی دلیل ہے کہ جب کسی مشرک پر اعتماد ہو کہ وہ دھوکہ نہیں دے گا تو اس سے تعاون لیا جا سکتا ہے۔ اسے راستے کا گائیڈ بنایا جا سکتا ہے۔ کفار نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا منصوبہ تیار کر رکھا تھا اگر کفار سے راستے میں آمنا سامنا ہو جاتا اور وہ آپ کی مدد کرتا تو کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے کہتے کہ تم مشرک ہو ہماری مدد نہ کرو۔

(8) اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت مدینہ کے وقت سراقہ بن مالک سے بھی مدد لی سراقہ اس وقت مشرک تھا وہ فتح مکہ کے دن اسلام لایا تھا۔(الاصابۃ 3/35 اسد الغابۃ رقم 1900)

آپ نے سراقہ کو امان لکھ کر دی وہ جسے بھی راستہ میں ملتا کہتا تم کفایت کئے گئے ہو وہ ادھر نہیں ہیں اور جسے بھی ملتا اسے واپس لوٹا دیتا۔ (صحیح البخاری 3905،3906)

یہ تو چند ایک واقعات تھے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے مکی زندگی میں کفار سے حسب ضرورت تعاون لیا اور مسلم و مسند احمد مسند الدارمی کی حدیث عائشہ سے معلوم ہوتا ہے کہ بدر کے میدان میں لڑنے والے مشرک سے آپ نے کہا تھا واپس پلٹ جاؤ۔ ہم مشرک سے ہرگز مدد نہیں لیں گے۔ اس سے شبہ ہو سکتا ہے کہ مدینہ میں مشرک سے مدد لینا ناجائز ہو گئی تھی ہم وہ دلائل ذکر کرتے ہیں جس میں مدنی زندگی میں مشرکین و کفار سے حسب حاجت تعاون لینے پر رہنمائی ملتی ہے۔

(1) غزوہ حنین میں جانے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفوان بن امیہ سے زرہیں عاریۃ لی تھیں (مسند احمد 3/1400،40، 6/360 ابوداؤد (3062) نسائی کبریٰ (410) مستدرک حاکم 2/47) غزوہ حنین فتح مکہ کے بعد 8ھ میں ہوا اور صفوان اس وقت مسلمان نہیں ہوئے تھے۔

(2) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار کے ساتھ جو صلح حدیبیہ کی اس معاہدے کی شرائط میں سے ایک شق یہ تھی جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا حلیف بننا چاہے وہ ان کا حلیف بن جائے اور جو قریش کا حلیف بننا چاہے اسے بھی اجازت ہے، بنو خزاعہ مسلمانوں کے اور بنو بکر کے لوگ قریش کے حلیف بن گئے۔ (السیرۃ لابن ہشام 3/318 السیرۃ لابن کثیر 3/321) یہ صلح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور مشرکین مکہ کے درمیان تھی بنو خزاعہ کے مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حلیف بننا پسند کیا جس کا تقاضا تھا کہ وہ لڑائی میں مسلمانوں کے مددگار ہوں گے۔ اور جب بنو خزاعہ  پر ان کے دشمن حملہ کریں گے تو مسلمان ان کی مدد کریں گے پھر یہ ہوا کہ بنو خزاعہ پر بنو بکر نے حملہ کر دیا اور قریشیوں نے ان کا ساتھ دیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بدلہ لینے کے لئے ان پر چڑھائی کر دی اور یہ فتح مکہ کا سبب بن گیا تفصیل کے لئے دیکھیں الرحیق المختوم غزوہ فتح مکہ ص 363۔ اس واقعہ سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ حسب ضرورت کفار سے معاہدہ کر کے اپنے دشمنوں کے ساتھ لڑا جا سکتا ہے۔

(3) مولانا صفی الرحمٰن مبارکپوری لکھتے ہیں (احد کے میدان میں) مقتولین میں بنو ثعلبہ کا ایک یہودی تھا اس نے اس وقت جبکہ جنگ کے بادل منڈلا رہے تھے اپنی قوم سے کہا اے جماعت یہود! خدا کی قسم تم جانتے ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد تم پر فرض ہے یہود نے کہا مگر آج سبت (سنیچر) کا دن ہے اس نے کہا تمہارے لئے کوئی سبت نہیں پھر اس نے اپنی تلوار لی، سازوسامان اٹھایا اور بولا اگر میں مارا جاؤں تو میرا مال محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہے وہ اس میں جو چاہیں گے کریں گے، اس کے بعد میدان جنگ میں گیا اور لڑتے ہوئے مارا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مخریق بہترین یہودی تھا۔ (الرحیق المختوم ص 455)

اس کی موت کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے اموال کو قبضے میں لے لیا اور عام صدقات مدینہ اسی مال سے ہوتے تھے (مزید دیکھیں سیرۃ ابن ہشام 2/26 سیرۃ ابن ہشام مع روض الانف 2/375 مطبوعہ بیروت البدایہ والنہایہ 4/32 سیرۃ النبی اردو لابن کثیر 2/59 طبقات ابن سعد 1/51 تاریخ مدینہ دمشق لابن عساکر 10/229)

اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی کافر مسلمان کے حق میں بہتر ہو تو اسے لڑائی میں حسب ضرورت شریک کیا جا سکتا ہے اور اس کے مال و متاع کو اسلام کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

(4) ذی مخمر صحابی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا تم رومیوں کے ساتھ امن والی صلح کرو گے پھر تم اور وہ ایک دشمن سے لڑائی کرو گے تم مدد کئے جاؤ گے اور صحیح سلامت رہو گے غنیمت کا مال پاؤ گے پھر تم واپس پلٹو گے یہاں تک کہ ٹیلے والی چراگاہ کے پاس اترو گے تو عیسائیوں میں سے ایک آدمی صلیب اٹھا کر کہے گا صلیب غالب آ گئی اس پر مسلمانوں میں سے ایک آدمی غضبناک ہو کر اسے توڑ ڈالے گا اس وقت روم کے عیسائی غدر کریں گے یعنی صلح والا معاہدہ توڑ ڈالیں گے ہر جھنڈے کے ساتھ دس ہزار آدمی ہوں گے اور اللہ مسلمانوں کی جماعت کو شہادت کے ساتھ عزت عطا کرے گا۔ (مسند احمد 4/91، 5/372م409۔ ابوداؤد 4292،4293) اور اس معنی کی ایک حدیث صحیح البخاری 3176 میں بھی موجود ہے۔

اس صحیح حدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ مشرکین و کفار سے صلح کر کے مشترکہ دشمن کے ساتھ لڑا جا سکتا ہے اللہ تبارک و تعالیٰ جب چاہے اپنے دین کی مدد کسی فاسق و فاجر عیسائی کافر سے لے لے جیسا کہ صحیح البخاری 3062 میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کے بارے کہا یہ جہنمی ہے پھر جنگ کے وقت وہ بڑی شدت سے لڑا اور زخمی ہو گیا آپ سے کہا گیا یا رسول اللہ جس کے بارے میں آپ نے جہنمی ہونے کا کہا تھا وہ آج بڑی شدت سے لڑا ہے۔

بالآخر رات کے وقت وہ زخموں پر صبر نہ کر سکا اور اپنے آپ کو قتل کر بیٹھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر دی گئی تو آپ نے کہا: الله اكبر اشهد انى عبدالله ورسوله (اللہ سب سے بڑا ہے میں شہادت دیتا ہوں کہ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں)

پھر آپ نے بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا انہوں نے لوگوں میں اعلان کیا کہ مسلمان کے سوا کوئی بھی جنت میں نہیں داخل ہو گا۔ اور بلاشبہ اللہ اس دین کی مدد فاجر آدمی سے بھی لے لیتا ہے۔ اس مفہوم کی کئی ایک احادیث مجمع الزوائد کتاب الجھاد باب فی من یؤیدھم الاسلام 5/548 تا 550 جدید میں موجود ہے۔

عمر رضی اللہ عنہ نے کہا اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا نہ ہوتا کہ "بےشک اللہ اس دین کی مدد فرات کے کنارے ربیعہ قبیلے کے نصاریٰ سے لے لے گا تو میں کوئی اعرابی نہ چھوڑتا مگر اسے قتل کر دیتا یا وہ مسلمان ہو جاتا۔"(مسند بزار 1723۔ مجمع الزوائد 9565۔ ابو یعلی 236)

مذکورہ بالا دلائل سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ بوقت ضرورت اگر کافر سے مسلمان کو مدد حاصل کرنی پڑے تو مدد لی جا سکتی ہے، امام شافعی نے کتاب الام 4/276 میں بھی تقریبا یہی موقف اختیار کیا ہے اور علامہ البانی نے التعلیقات الرضیہ علی الروضۃ الندیۃ 3/443 میں اسے جید قرار دیا ہے اسی طرح دیکھیں الروضۃ الندیۃ 3/542،443 مع التعلیقات الرضیہ، السلیل الجرار 3/717 بیہقی 9/37، حنفی فقہاء کا موقف ملاحظہ ہو رد المختار لابن عابدین شامی 4/147،148 شرح السیر الکبیر للسرخسی 4/1516 حنبلی مذہب کے لئے المغنی لابن قدامہ 9/256 اور اس مسئلہ کی مفصل بحث کے لئے کتاب "صدر عدوان الملحدین" للشیخ ربیع بن ہادی المدخلی کا مطالعہ مفید رہے گا۔ واللہ اعلم۔ امام نووی فرماتے ہیں:

(وقال الشافعي وآخرون : إن كان الكافر حسن الرأي في المسلمين ودعت الحاجة إلى الاستعانة به أستعين به وإلا فيكره ، وحمل الحديثين على هذين الحالين ، وإذا حضر الكافر بالإذن رضخ له من الغنائم ولا يسهم له هذا مذهب مالك والشافعى وابى الحنيفه والجمهور) (شرح صحیح مسلم للنووی 12/177ط دارالکتب العلمیه بیروت)

امام شافعی اور دیگر فقہاء محدثین نے کہا ہے کہ اگر کافر مسلمانوں کے بارے میں اچھی رائے رکھتے ہوں اور ان کی مدد کی حاجت ہو تو ان سے مدد لی جائے گی وگرنہ مکروہ ہو گی اور دونوں قسم کی احادیث کو ان حالتوں پر محمول کیا ہے اور جب کافر اجازت کے ساتھ میدان جنگ میں حاضر ہو تو اسے غنیمت کے مال سے کچھ عطیہ دیا جائے گا باقاعدہ اس کا حصہ نہیں نکالا جائے گا۔ یہ مذہب امام مالک، امام شافعی، امام ابوحنیفہ اور جمہور محدثین کا ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

تفہیمِ دین

کتاب الجہاد،صفحہ:282

محدث فتویٰ

تبصرے