السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جہاد میں شریک ہونے کے لئے والدین کی اجازت کا شرعی طور پر کیا مسئلہ ہے کتاب و سنت کی رو سے واضح کریں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جہاد میں شرکت کے لئے والدین کی اجازت کے متعلق دو طرح کی احادیث موجود ہیں عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا وہ آپ سے جہاد میں شرکت کی اجازت چاہتا تھا۔ آپ نے فرمایا کیا تیرے والدین زندہ ہیں؟ اس نے کہا ہاں،آپ نے فرمایا: پھر انہیں میں جہاد کرو۔ (صحیح البخاری کتاب الجہاد)
اسی طرح عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے ہی ایک روایت میں ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اس نے پوچھا سب سے افضل عمل کیا ہے؟ آپ نے فرمایا نماز اس نے کہا پھر کیا ہے؟ آپ نے فرمایا جہاد کرنا تو اس نے کہا میرے والدین ہیں آپ نے فرمایا میں تجھے والدین کے ساتھ خیر کا حکم دیتا ہوں اس نے کہا " والذى بعثك بالحق لاجاهدن ولا تركنهما قال فأنت أعلم " اس ہستی کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا میں ضرور جہاد کروں گا اور انہیں ضرور چھوڑ کر جاؤں گا آپ نے فرمایا پھر تو بہتر جانتا ہے۔ (ابن حبان 4/11)
اہل علم نے ان دونوں احادیث کے متعلق دو قسم کی توجیہ بیان کی ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ یہ حدیث نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں دونوں احادیث میں موافقت کرتے ہوئے یہ صورت نکلتی ہے کہ فرض عین جہاد پر محمول ہے۔ یعنی جب جہاد فرض عین ہو تو والدین کی اجازت ضروری نہیں۔ (فتح الباری 6/141)
دوسری توجیہ یہ ہے کہ والدین کی اجازت والے مسئلہ کو امام یا شرع کے مکلف آدمی کے سپرد کر دیا جائے اب دونوں صورتوں میں مصلحت جس کا تقاضا کرے اسے مقدم کرنا واجب ہے۔ انصار و مہاجرین جہاد کرتے تھے اور ہم نے ذخیرہ احادیث میں سے کسی بھی حدیث میں نہیں دیکھا کہ وہ ہر غزوے میں والدین کی اجازت کا التزام کرتے ہوں۔ (کتاب الروضۃ الندیہ 2/333ط جدید محقق 2/719)
ہمارے نزدیک یہ دوسری توجیہ زیادہ وزنی ہے اس لئے کہ دونوں احادیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ صحابہ کرام نے اپنے آپ کو جہاد کے لئے اپنے امام اور قائد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں پیش کیا آپ نے ان کا فیصلہ کیا اور ابن حبان کی صحیح حدیث کے مطابق بات یہ ہے کہ جب مجاہد صحابی نے والدین کو چھوڑ کر جہاد میں جانے کا عزم کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ڈانٹا یا منع نہیں کیا بلکہ معاملہ اس کے سپرد کر دیا اور فرمایا تو اپنی حالت کو بہتر جانتا ہے۔ اسی لئے اگر کوئی شرع کا مکلف آدمی اپنے گھریلو حالات کو دیکھ کر خود فیصلہ کر لے کہ وہ جہاد پر جانا چاہتا ہے تو والدین کی اجازت کے بغیر بھی جا سکتا ہے۔
نوٹ: مولانا مبشر احمد ربانی نے ایک سوال کے جواب میں جو مفصل جواب تحریر کیا ہے وہ موجودہ حالات میں اس موقف کی بھی تائید کرتا ہے کہ افغانستان کی موجودہ امارت اسلامی برطانیہ اور امریکہ کی دہشت گردی اور جارحیت کے خلاف چین، روس، کوریا یا کسی دوسرے غیر مسلم ملک سے مدد لے سکتی ہے، اس میں کوئی حرج نہیں۔ نیز اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ روس کے خلاف جنگ کے دوران افغانستان کے مجاہدین نے امریکہ اور یورپ کا جو تعاون حاصل کیا تھا وہ درست، صحیح اور بروقت تھا۔ (مدیر غزوہ ٹائمز)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب