سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(597) امت مسلمہ میں شرک کا وجود

  • 2265
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 4134

سوال

(597) امت مسلمہ میں شرک کا وجود
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اس حدیث سے کیا مراد ہے؟

«وَاللَّهِ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تُشْرِكُوا بَعْدِي»البخاری 1344 ومسلم (2296

"اللہ کی قسم مجھے اپنے بعد تم پر شرک کا کوئی خوف نہیں"

شرکیہ عقائد کے حامل بعض لوگ اس حدیث کو بطور دلیل استعمال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ امت محمدیہ میں شرک ہو ہی نہیں سکتا؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس حدیث میں امت کے شرک میں مبتلا ہونے کی نفی نہیں ہے ،بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ پوری کی پوری امت کبھی شرک میں مبتلا نہیں ہو گی ،بلکہ ہر دور میں کچھ لوگ ایسے موجود رہیں گے جو شرک سے بچنے والے ہونگے۔ جبکہ کچھ لوگ شرک بھی کریں گے ،جیسا کہ خود نبی کریمﷺ نے خبر دی ہے:

«لا تقوم الساعة حتى تلحق قبائل من أمتي بالمشرکین وحتى تعبد قبائل من أمتي بالأوثان»

''قیامت قائم نہیں ہوگی جب تک میری اُمّت کے قبائل مشرکین سے نہ مل جائیں اور یہاں تک کہ میری اُمت کے قبائل بتوں کی عبادت نہ کریں۔''

اس حدیث میں بھی اُمت کے افراد میں شرک کے پائے جانے کا واضح ثبوت ہے اور اس کو قربِ قیامت کے ساتھ خاص قرار دینا حدیث میں معنوی تحریف کے مترادف ہے۔

دوسری جگہ آپ نے فرمایا:

«لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَضْطَرِبَ أَلَيَاتُ نِسَاءِ دَوْسٍ عَلَى ذِي الْخَلَصَةِ » البخاری 7116 ومسلم 2906

اس وقت تک قیامت قائم نہیں ہو گی جب تک قبیلہ دوس کی عورتوں کی سرینیں ذی الخلصہ بت کے گرد طواف نہیں کریں گی۔

اس حدیث میں بھی اُمت کے افراد میں شرک کے پائے جانے کا واضح ثبوت ملتا ہے۔

فرمانِ الٰہی ہے:

﴿الَّذينَ ءامَنوا وَلَم يَلبِسوا إيمـٰنَهُم بِظُلمٍ أُولـٰئِكَ لَهُمُ الأَمنُ وَهُم مُهتَدونَ ٨٢ ﴾.... سورة الانعام

''وہ جو ایمان لائے اور اپنے ایمان میں کسی ناحق کی آمیزش نہ کی، انہی کے لیے امان اور وہی راہ پر ہیں۔''

اس آیتِ مبارکہ میں ظلم سے مراد شرک ہے جس کی وضاحت نبی کریم ﷺ نے فرمائی ہے۔ جیساکہ صحیح مسلم میں سیدنا عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں:

جب یہ آیت نازل ہوئی کہ''جن مؤمنین نے اپنے ایمان کے ساتھ ظلم نہیں کیا...'' تو صحابہ کرام اس آیت سے بہت پریشان ہوئے اور رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا: ''ہم میں سے کون شخص ہے جو ظلم نہیں کرتا؟'' رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اس آیت کا مطلب یہ نہیں ہے (جو تم سمجھے) بلکہ اس آیت میں ظلم سے مراد شرک ہے جس طرح لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: ''اے بیٹے! اللہ کے ساتھ شرک نہ کرنا ،یقیناً شرک کرنا ظلم عظیم ہے۔

یہ آیت ایمان والوں سے متعلق ہے۔ اسی لیے صحابہ نے اسے اپنے متعلق سمجھ کر پریشانی کا اظہار کیا ۔ چنانچہ نبی ﷺ نے ظلم کے مفہوم کو واضح کیا اور اُمت میں شرک کے وجود کو ردّ نہیں فرمایا بلکہ باقی رکھا اورنہ ہی اسے قربِ قیامت کے ساتھ خاص قرار دیا ۔لہٰذا اس آیت میں شرکِ اکبر کی بات ہے اوراُمت میں اس کے وجود کا اثبات بھی۔

مذکورہ بالا دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ امت مسلمہ کے بعض افراد میں شرک کا وقوع ہو گا،اگرچہ عمومی طور پر ساری امت اس میں مبتلا نہ ہو گی۔

هذا ما عندي والله اعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

کتاب الصلاۃجلد 1

تبصرے