سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(175) ذی الحجہ کا چاند دیکھنے کے بعد بال اور ناخن نہ اتروانا

  • 22608
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1101

سوال

(175) ذی الحجہ کا چاند دیکھنے کے بعد بال اور ناخن نہ اتروانا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جس شخص نے قربانی کرنی ہو وہ ذی الحجہ کا چاند دیکھنے کے بعد بال اور ناخن اتروائے یا پہلے بھی اتروا سکتا ہے، اسی طرح جس شخص نے قربانی نہ کرنی ہو اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جو آدمی قربانی کرنے کا ارادہ رکھتا ہو اسے ذی الحجہ کا چاند دیکھنے کے بعد بال یا ناخن کاٹنے سے باز رہنا چاہیے، ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "جب تم ذی الحجہ کا چاند دیکھ لو اور تمہارا قربانی کرنے کا ارادہ ہو تو بالوں اور ناخنوں کو تراشنے سے رک جاؤ۔ (صحیح مسلم کتاب الاضاحی باب نھی من دخل علیہ عشر ذی الحجہ وھو مرید التضحیہ ان یاخذ من شعرہ و اظفارہ شیاء 41)

اور جس شخص نے قربانی نہ کرنی ہو وہ عید والے دن اگر ناخن تراش لے، بال اتار لے، مونچھیں کاٹ ڈالے، زیر ناف بال اتار لے تو اسے بھی قربانی کا ثواب مل جاتا ہے۔ عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ یقینا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "مجھے یوم الاضحیٰ کو عید کا حکم دیا گیا ہے اسے اللہ تعالیٰ نے اس امت کے لئے مقرر کیا ہے ایک آدمی نے کہا آپ مجھے یہ بات بتائیں کہ اگر میں قربانی کے لئے مونث دودھ دینے والی بکری کے سوا نہ پاؤں تو کیا اس کی قربانی کروں؟ آپ نے فرمایا نہیں لیکن تم اپنے بال، ناخن تراش لینا اور اپنی مونچھیں کاٹنا اور شرمگاہ کے بال مونڈ دینا اللہ کے ہاں یہ تیری پوری قربانی شمار ہو گی۔ (ابوداؤد کتاب الضحایا باب ماجاء فی ایجاب الاضاحی 2789، نسائی کتاب الضحایا باب من لم یجد الاضحیۃ 4377) اسے امام ابن حبان 1043 اور امام اکم 4/223 اور امام ذہبی نے صحیح کہا ہے، اس کی سند میں عیسیٰ بن ہلال الصدفی صدوق ہے تقریب مع تحریر 3/145 جس کی وجہ سے یہ روایت حسن ہے۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس نے قربانی نہ کرنی ہو وہ اپنے بال اور ناخن عید والے دن تراش لے تو اس کو بھی اللہ کے ہاں سے پوری قربانی کا ثواب مل جائے گا۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

تفہیمِ دین

کتاب العیدین،صفحہ:231

محدث فتویٰ

تبصرے