سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(170) عورت کا کفن

  • 22603
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-24
  • مشاہدات : 1129

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

عورت کا کفن کیسا ہونا چاہیے یعنی اس کے کفن کے کتنے کپڑے ہوتے ہیں بعض لوگ کہتے ہیں کہ پاجامہ عورت کو جائز نہیں وضاحت کریں۔(اخت ابو حنظلہ، چیچہ وطنی چک L-12/47)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عام فقہاء محدثین کا کہنا ہے کہ عورت کو پانچ کپڑوں میں کفن دیا جائے۔ (1) ازار (تہبند) (2) کُرتا یا قمیص (3) خمار یعنی اوڑھی (جس کو دامنی یس سربند بھی کہتے ہیں) (4)-(5) دو لفافے یعنی دو بڑی چادریں جس میں لپیٹا جائے اس کی دلیل یہ بیان کی جاتی ہے کہ لیلیٰ بنت قائف ثقفیہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں ان عورتوں میں تھی جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی ام کلثوم رضی اللہ عنہا کو غسل دیا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے ہمیں تہبند دیا پھر کُرتا پھر خمار (اوڑھنی) پھر ایک چادر پھر اس کے بعد ایک دوسرے کپڑے میں لپیٹی گئیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دروازے کے پاس بیٹھے ہوئے تھے آپ کے پاس سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا کا کفن تھا آپ ہمیں ایک ایک کپڑا کر کے دیتے تھے۔ (سنن ابوداؤد کتاب الجنائز باب فی کفن المراۃ (3158) مسند احمد (6/380)

لیکن یہ روایت درست نہیں اس کی سند میں نوح بن حکیم مجہول آدمی ہے اس کی عدالت نامعلوم ہے اسی طرح اس میں داؤد نامی آدمی کا بھی پتہ نہیں وہ کون ہے اور یہ بھی یاد رہے کہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا جب فوت ہوئی تھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میدان بدر میں تھے ان کے پاس موجود نہ تھے۔ ملاحظہ ہو (نصب الرایۃ 2/258)

اسی لئے علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

" والمترأة فى ذلك كالرجل إذلا دليل على التفريق "

"اس مسئلہ میں عورت بھی مرد کی طرح ہے عورت اور مرد کے کفن میں فرق کی کوئی دلیل موجود نہیں۔" (احکام الجنائز ص 85)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تین سفید سوتی سحولی چادروں میں کفن دیا گیا اس میں نہ قمیض تھی اور نہ پگڑی۔ (مسند احمد 6/40، 118، 132، 203)

لہذا مسنون یہی ہے کہ میت مرد ہو یا عورت اسے تین کپڑوں میں دفنا دیا جائے۔ واللہ اعلم

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

تفہیمِ دین

کتاب الجنائز،صفحہ:223

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ