السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
زمین ٹھیکے پر دینا جائز ہے یا ناجائز، دلائل سے ثابت کریں اگر جائز ہے تو عشر مالک دے گا یا مزارع۔ (ابو عاصم محمد مشتاق، مسئول سندھوالہ سیکٹر سیالکوٹ)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
زمین کو اگر کرائے پر دینا ہو تو روپے پیسے کے عوض یا کل پیداوار میں سے مقررہ کردہ حصہ کے بدلے میں دے شرعی طور پر اس کی رخصت موجود ہے۔ صحیح بخاری میں حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے یہودیوں کو زمین اس شرط پر دی کہ وہ اس میں کاشت کاری کریں تو کل پیداوار میں سے نصف حصہ ان کا ہو گا اور نصف ہمارا۔ اسی طرح بخاری و مسلم میں یہ بھی ہے کہ رافع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم زمین کو کرائے پر اس طرح دیتے تھے کہ طے کر لیتے کہ زمین کے اس حصے کی پیداوار ہماری اور ان کے لئے اس حصے کی کبھی ایک طرف پیداوار ہوتی اور دوسری طرف نہ ہوتی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس سے منع کر دیا لیکن چاندی کے عوض دینے سے منع نہیں کیا ان صحیح احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین اگر کرائے یا ٹھیکے پر دینی ہو تو اس کا کرایہ یا ٹھیکہ رقم کی صورت میں بھی لیا جا سکتا ہے اور غلے کی صورت میں بھی، اس زمین سے جو پیداوار ہوتی ہے اس کا عشر مزارع دے گا کیونکہ فصل کا مالک کاشتکار ہے مالک زمین نہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"اے ایمان والو! پاکیزہ چیزوں میں سے خرچ کرو جو تم نے کمائی ہیں اور اس میں سے بھی جو ہم نے تمہارے لئے زمین سے نکالا ہے۔" (البقرہ: 267)
اور جو زمین کا مالک ہے جس نے ٹھیکے یا کرائے پر زمین دی ہے اسے جو رقم ملے اگر اس کے پاس پہلے سے اتنی رقم جو نصاب زکوٰۃ کو پہنچتی ہے تو اس میں ملا کر زکوٰۃ کا حساب کر کے زکوٰۃ دے گا اور اگر اس سے پہلے وہ صاحب نصاب نہیں اور جو رقم اسے ٹھیکے میں ملی ہے وہ اتنی ہے کہ اس پر زکوٰۃ فرض ہوئی ہے تو سال کا عرصہ گزرنے پر اس میں سے زکوٰۃ دے گا۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب