السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک ایسا آدمی جس نے کسی دوسرے آدمی سے زمین ٹھیکہ پر لے کر گندم کی فصل کاشت کی ہو اور دیگر اس پر قرض بھی ہو۔ تو کیا اس آدمی پر بھی پورا پورا عشر دینا فرض ہے یا کہ کمی بیشی ہو سکتی ہے؟ براہ کرم قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔ (عبداللہ عمر، کوٹ رائے جعفر کھرل ضلع اوکاڑہ)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
کوئی آدمی مقروض ہو اور اس کے پاس زمین کی آمدنی کے علاوہ دیگر ذرائع آمدنی ہوں جس میں سے قرض ادا کر سکتا ہو تو اسے زمین سے حاصل ہونے والی ساری آمدنی سے عشر ادا کرنا ضروری ہے کیونکہ اللہ کا ارشاد ہے۔
ترجمہ "اے ایمان والو! خرچ کرو پاکیزہ چیزوں میں سے جو تم نے کمائی ہیں۔ اور اس میں سے جو ہم نے تمہارے لیے زمین سے نکالا ہے۔" (البقرہ: 365)
اس آیت میں اللہ نے زمین سے نکلنے والی ساری آمدنی میں سے خرچ کرنے کا حکم دیا ہے اور اگر اس کے پاس زمینی آمدنی کے علاوہ اور کوئی ذریعہ آمدن نہیں تو وہ زمین کی آمدنی سے اپنا قرض اتارے اور باقی سے عشر دے اور اگر قرض اتنا ہے کہ آمدنی سے پورا پورا وضع ہوتا ہے تو قرض ادا کر دے۔ اس پر عشر فرض نہیں اس لیے کہ اللہ نے مسلمانوں پر جو صدقہ فرض کیا ہے وہ اغنیاء سے لیا جاتا ہے اور فقراء پر تقسیم کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ صحیح بخاری (4345) میں موجود ہے۔
جس آدمی کا سارا مال ہی قرض میں جا رہا ہو تو وہ غنی نہیں بلکہ فقیر ہے۔ اور اللہ کسی آدمی کو اس کی وسعت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتا۔ تفصیل کے لیے دیکھیں۔
(احکام زکوٰۃ و عشر و صدقہ فطر از حافظ عبدالسلام بن محمد)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب