سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(590) نافرمان بیوی کا حکم

  • 2258
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 15647

سوال

(590) نافرمان بیوی کا حکم
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میری بیوی پانچ وقت کی نمازی بھی ہے،لیکن بدزبان بھی ہے،اس نے مجھ پر ہاتھ بھی اٹھایا ہے تو ایسی عورت کے لیے کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شریعت نے تفصیل کے ساتھ خاوند اور بیوی کے حقوق و فرائض کو بیان کیا ہے،اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک اپنے فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی کرتا ہے تو وہ اللہ کے ہاں مسؤول اور جواب دہ ہے:

ارشاد باری تعالی ہے:

﴿وَلَهُنَّ مِثلُ الَّذى عَلَيهِنَّ بِالمَعر‌وفِ ۚ وَلِلرِّ‌جالِ عَلَيهِنَّ دَرَ‌جَةٌ..... ٢٢٨﴾.... سورة البقرة

اور ان عورتوں کے بھی ویسے ہی حقوق ہيں جیسے ان مردوں کے ہیں معروف طریقے پر ، ہاں مردوں کو ان عورتوں پر درجہ اور فضیلت حاصل ہے

امام جصاص رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

«أخبر الله تعالى في هذه الآية أن لكل واحد من الزوجين على صاحبه حقا ، وأن الزوج مختص بحق له عليها ليس لها عليه»

اللہ تعالی نے اس آیت میں یہ بیان کیا ہے کہ خاوند اور بیوی دونوں کے ایک دوسرے پر حق ہیں ، اور خاوند کو بیوی پر ایسے حق بھی ہیں جو بیوی کے خاوند پر نہیں ۔

امام ابن العربی فرماتے ہیں :

«هذا نص في أنه مفضل عليها مقدم في حقوق النكاح فوقها»

یہ اس کی نص ہے کہ مرد کو عورت پر فضیلت حاصل ہے اور نکاح کے حقوق میں بھی اسے عورت پر فضیلت حاصل ہے۔

خاوند کے حقوق مندرجہ ذیل ہیں:

ا – اطاعت کا وجوب :

اللہ تعالی نے مرد کو عورت پر حاکم مقرر کیا ہے جو اس کا خیال رکھے گا اور اس کی راہنمائی اور اسے حکم کرے گا جس طرح کہ حکمران اپنی رعایا پر کرتے ہیں ، اس لیے کہ اللہ تعالی نے مرد کو کچھ جسمانی اور عقلی خصائص سے نوازا ہے ، اور اس پر کچھ مالی امور بھی واجب کیے ہیں ۔

اللہ تعالی کافرمان ہے :

﴿الرِّ‌جالُ قَوّ‌ٰمونَ عَلَى النِّساءِ بِما فَضَّلَ اللَّهُ بَعضَهُم عَلىٰ بَعضٍ وَبِما أَنفَقوا مِن أَمو‌ٰلِهِم ۚ ..... ٣٤﴾.... سورة النساء

{مرد عورتوں پر حاکم ہیں اس وجہ سے کہ اللہ تعالی نے ایک کو دوسرے پر فضيلت دی ہے اور اس وجہ سے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کیے ہیں .

حافظ ابن کثیررحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

علی بن ابی طلحہ نے ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما سے بیان کیا ہے کہ { مرد عورتوں پر حاکم ہیں } یعنی وہ ان پر حاکم اور امیر ہیں ، یعنی ان کی اللہ تعالی کے حکم کے مطابق اطاعت کی جائے گی ، اور اس کی اطاعت اس کے اہل وعیال کے لیے احسان اور اس کے مال کی محافظ ہوگی ۔

مقاتل ، سدی ، اور ضحاک رحمہم اللہ تعالی نے بھی ایسے ہی کہا ہے ۔ دیکھیں تفسیر ابن کثیر ( 1 / 492 ) ۔

ب – خاوند کے لیے استمتاع ممکن بنانا :

خاوند کا بیوی پر حق ہے کہ وہ بیوی سے نفع حاصل کرے ، جب عورت شادی کرلے اور وہ جماع کی اہل بھی ہو تو عورت پر واجب ہے کہ وہ اپنے آپ کو عقد نکاح کی بنا پر خاوند کے طلب کرنے پر خاوند کے سپرد کردے ۔

وہ اس طرح کہ اسے مہر ادا کرے اور عورت اگر مطالبہ کرے تو اسے حسب عادت ایک یا دو دن کی مہلت دے کہ وہ رخصتی کے لیے اپنے آپ کو تیار کرلے کیونکہ یہ اس کی ضرورت ہے اوریہ بہت ہی آسان سی بات ہے جو کہ عادتا معروف بھی ہے ۔

اور جب بیوی جماع کرنے میں خاوند کی بات تسلیم نہ کرے تو یہ ممنوع ہے اور وہ کبیرہ کی مرتکب ہوئی ہے ، لیکن اگر کوئي شرعی عذر ہو تو ایسا کر سکتی ہے مثلا حیض ، یا فرضی روزہ ، اور بیماری وغیرہ ہو ۔

ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( جب مرد اپنی بیوی کو اپنے بستر پر بلائے اور بیوی انکار کر دے تو خاوند اس پر رات ناراضگی کی حالت میں بسر کرے تو صبح ہونے تک فرشتے اس پر لعنت کرتے رہتے ہیں ) صحیح بخاری حديث نمبر ( 3065 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1436 ) ۔

ج – خاوند جسے ناپسند کرتا ہو اسے گھر میں داخل ہونے کی اجازت نہ دینا :

خاوند کا بیوی پر یہ بھی حق ہے کہ وہ اس کے گھر میں اسے داخل نہ ہونے دے جسے اس کا خاوند ناپسند کرتا ہے ۔

ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( کسی بھی عورت کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ خاوند کی موجودگی میں ( نفلی ) روزہ رکھے لیکن اس کی اجازت سے رکھ سکتی ہے ، اور کسی کو بھی اس کے گھر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں لیکن اس کی اجازت ہو تو پھر داخل کرے ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 4899 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1026 ) ۔

سلیمان بن عمرو بن احوص بیان کرتے ہیں کہ مجھے میرے والد رضی اللہ تعالی عنہ نے حدیث بیان کی کہ وہ حجۃ الوداع میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حاضر ہوئے تھے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی کی حمد وثنا بیان کی اور وعظ ونصیحت کرنے کے بعد فرمایا :

( عورتوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو اور میری نصیحت قبول کرو ، وہ تو تمہارے پاس قیدی اور اسیر ہيں ، تم ان سے کسی چيز کے مالک نہيں لیکن اگر وہ کوئی فحش کام اور نافرمانی وغیرہ کریں تو تم انہيں بستروں سے الگ کردو ، اور انہیں مار کی سزا دو لیکن شدید اور سخت نہ مارو ، اگر تو وہ تمہاری اطاعت کرلیں تو تم ان پر کوئی راہ تلاش نہ کرو ، تمہارے تمہاری عورتوں پر حق ہیں اور تمہاری عورتوں کے بھی تم پر حق ہیں ، جسے تم ناپسند کرتے ہو وہ تمہارے گھر میں داخل نہ ہو ، اور نہ ہی اسے اجازت دے جسے تم ناپسند کرتے ہو ، خبردار تم پر ان کے بھی حق ہيں کہ ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو اور انہیں کھانا پینا اور رہائش بھی اچھے طریقے سے دو ) سنن ترمذی حدیث نمبر ( 1163 ) سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ( 1851 ) امام ترمذی رحمہ اللہ تعالی نے اسے حسن صحیح قرار دیا ہے ۔

جابر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( تم عورتوں کے بارہ میں اللہ تعالی سے ڈرو ، بلاشبہ تم نے انہيں اللہ تعالی کی امان سے حاصل کیا ہے ، اور ان کی شرمگاہوں کو اللہ تعالی کے کلمہ سے حلال کیا ہے ، ان پر تمہارا حق یہ ہے کہ جسے تم ناپسند کرتے ہو وہ تمہارے گھر میں داخل نہ ہو، اگر وہ ایسا کریں تو تم انہيں مار کی سزا دو جو زخمی نہ کرے اور شدید تکلیف دہ نہ ہو، اور ان کا تم پر یہ حق ہے کہ تم انہيں اچھے اور احسن انداز سے نان و نفقہ اور رہائش دو ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1218 ) ۔

د – خاوند کی اجازت کے بغیر گھر سے نکلنا :

خاوند کا بیوی پر یہ حق ہے کہ وہ گھر سے خاوند کی اجازت کے بغیر نہ نکلے ۔

شافعیہ اورحنابلہ کا کہنا ہے کہ : عورت کے لیے اپنے بیمار والد کی عیادت کے لیے بھی خاوند کی اجازت کے بغیر نہیں جاسکتی ، اورخاوند کو اس سے منع کرنے کا بھی حق ہے ۔ اس لیے کہ خاوند کی اطاعت واجب ہے تو واجب کو ترک کرکے غیر واجب کام کرنا جائز نہيں ۔

ھـ - تادیب : خاوند کو چاہیے کہ وہ بیوی کی نافرمانی کے وقت اسے اچھے اوراحسن انداز میں ادب سکھائے نہ کہ کسی برائی کے ساتھ ، اس لیے کہ اللہ تعالی نے عورتوں کواطاعت نہ کرنے کی صورت میں علیحدگی اور ہلکی سی مار کی سزا دے کرادب سکھانے کا حکم دیا ہے ۔

علماء احناف نے چارمواقع پر عورت کومار کے ساتھ تادیب جائز قرار دی ہے جو مندرجہ ذيل ہیں :

1- جب خاوند چاہے کہ بیوی بناؤ سنگار کرے اور بیوی اسے ترک کردے

2- جب بیوی طہر کی حالت میں ہو اور خاوند اسے مباشرت کے لیے بلائے تو بیوی انکار کردے ۔

3- نماز نہ پڑھے ۔

4- خاوند کی اجازت کے بغیر گھر سے نکلے ۔

تادیب کے جواز پر دلائل :

اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

’’اور جن عورتوں کی نافرمانی اور بددماغی کا تمہیں ڈر اورخدشہ ہوانہيں نصیحت کرو ، اور انہیں الگ بستروں پر چھوڑ دو ، اور انہیں مار کی سزا دو ‘‘ سورۃالنساء34 

اور ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالی کا فرمان کچھ اس طرح ہے :

’’اے ایمان والو ! اپنے آپ اور اپنےاہل وعیال کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن لوگ اور پتھر ہیں‘‘ سورۃ التحریم 6

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے :

قتادہ رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں : آپ انہیں اللہ تعالی کی اطاعت کا حکم دیں ، اوراللہ تعالی کی معصیت ونافرمانی کرنے سے روکیں ، اور ان پر اللہ تعالی کے احکام نافذ کریں ، انہیں ان کا حکم دیں ، اور اس پر عمل کرنے کے لیے ان کا تعاون کریں ، اورجب انہیں اللہ تعالی کی کوئی معصیت ونافرمانی کرتے ہوئے دیکھیں تو انہیں اس سے روکیں اور اس پر انہیں ڈانٹیں ۔

ضحاک اور مقاتل رحمہم اللہ تعالی نے بھی اسی طرح کہا ہے :

مسلمان کا حق ہے کہ وہ اپنے قریبی رشتہ داروں ، گھر والوں اور اپنے غلاموں اور لونڈیوں کو اللہ تعالی کے فرائض کی تعلیم دے اور جس سے اللہ تعالی منع کیا ہے وہ انہیں سکھائے ۔

دیکھیں تفسیر ابن کثیر ( 4 / 392 ) ۔

و – بیوی کا اپنے خاوند کی خدمت کرنا :

اس پر بہت سے دلائل ہيں جن میں سے کچھ کا ذکر تو اوپر بیان ہو چکا ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کا قول ہے:

بیوی پر اپنے خاوند کی اچھے اور احسن انداز میں ایک دوسرے کی مثل خدمت کرنا واجب ہے ، اور یہ خدمت مختلف حالات کے مطابق ہوتی ہے ، تو ایک دیھاتی عورت کی خدمت شہر میں بسنے والی عورت کی طرح نہیں ، اور اسی طرح ایک طاقتور عورت کی خدمت کمزور اور ناتواں عورت کی طرح نہیں ہوسکتی ۔

دیکھیں الفتاوی الکبری ( 4 / 561 ) ۔

ز - عورت کا اپنا آپ خاوند کے سپرد کرنا :

جب عقدنکاح مکمل اور صحیح شروط کے ساتھ پورا اور صحیح ہو تو عورت پر واجب ہے کہ وہ اپنے آپ کو خاوند کے سپرد کردے اور اسے استمتاع ونفع اٹھانے دے ، اس لیے کہ عقد نکاح کی وجہ سے عوض خاوند کے سپرد ہونا چاہیے ، جو کہ استمتاع اور نفع کی صورت میں ہے ، اور اسی طرح عورت بھی عوض کی مستحق ہے جو کہ مہر کی صورت میں دیا جاتا ہے ۔

ح – بیوی کی اپنے خاوند سے حسن معاشرت :

اس کی دلیل اللہ تعالی کا فرمان ہے :

’’اورعورتوں کے بھی ویسے ہی حق ہیں جیسے ان مردوں کے ہیں اچھائي کے ساتھ‘‘ سورۃ البقرۃ228

امام قرطبی رحمہ اللہ تعالی کا قول ہے :

ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے ہی روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا : یعنی ان عورتوں کے لیے حسن صحبت ، اوراچھے اور احسن انداز میں معاشرت بھی ان کے خاوندوں پراسی طرح ہے جس طرح ان پر اللہ تعالی نے خاوندوں کی اطاعت واجب کی ہے ۔

اور یہ بھی کہا گيا ہے :

ان عورتوں کے لیے یہ بھی ہے کہ ان کے خاوند انہيں تکلیف اور ضرر نہ دیں جس طرح ان عورتوں پر خاوندوں کے لیے ہے ۔ یہ امام طبری کا قول ہے ۔

اور ابن زید رحمہ اللہ تعالی عنہ کہتے ہيں :

تم ان عورتوں کے بارہ میں اللہ تعالی کا تقوی اختیار کرو اور اس سے ڈرو ، جس طرح کہ ان عورتوں پر بھی ہے کہ وہ بھی تمہارے بارہ میں اللہ تعالی کا تقوی اختیار کريں اور ڈريں ۔

اور معنی قریب قریب سب ایک ہی ہے ، اور مندرجہ بالا آیت سب حقوق زوجیت کو عام ہے ۔

دیکھیں تفسیر القرطبی ( 3 / 123- 124 ) ۔

اگر بیوی ان حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کرتی ہے تو شریعت نے طلاق دینے سے پہلے اسے سمجھانے اور اس کی اصلاح کرنے کےلئے ترتیب وار مندرجہ ذیل تین طریقے بتلائے ہیں:

۱) …پہلا طریقہ اور درجہ یہ ہے کہ خاوند نرمی سے بیوی کو سمجھائے ، ا س کی غلط فہمی دور کرے۔ اگر واقعی وہ جان کر غلط روش اختیار کئے ہوئے ہے تو سمجھا بجھا کر صحیح روش اختیار کرنے کی تلقین کرے، اس سے کام چل گیا تو معاملہ یہیں ختم ہوگیا، عورت ہمیشہ کے لئے گناہ سے اور مرد قلبی اذیت سے اور دونوں رنج و غم سے بچ گئے اور اگر اس فہمائش سے کام نہ چلے تو …

۲)… دوسرا درجہ یہ ہے کہ ناراضگی ظاہر کرنے کے لئے بیوی کا بستر اپنے سے علیٰحدہ کردے اور اس سے علیٰحدہ سوئے۔ یہ ایک معمولی سزا اور بہترین تنبیہ ہے، اس سے عورت متنبہ ہو گئی تو جھگڑا یہیں ختم ہوگیا، اور اگر وہ اس شریفانہ سزا پر بھی اپنی نافرمانی اور کج روی سے باز نہ آئی تو…

۳)… تیسرے درجے میں خاوند کومعمولی مار مارنے کی بھی اجازت دی گئی ہے، جس کی حد یہ ہے کہ بدن پر اس مار کا اثر اور زخم نہ ہو… مگر اس تیسرے درجہ کی سزا کے استعمال کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پسند نہیں فرمایا، ا سلئے اس درجہ پر عمل کرنے سے بچنا اولیٰ ہے ۔ بہرحال اگر اس معمولی مارپیٹ سے بھی معاملہ درست ہوگیا، صلح صفائی ہوگئی، تعلقات بحال ہوگئے، تب بھی مقصد حاصل ہوگیا، خاوند پر بھی لازم ہے کہ وہ بھی بال کی کھال نہ نکالے اور ہر بات منوانے کی ضد نہ کرے، چشم پوشی اور درگزر سے کام لے اور حتی الامکان نباہنے کی کوشش کرے۔

هذا ما عندي والله اعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

کتاب الصلاۃجلد 1

تبصرے