السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
صدقہ فطر کا کیا حکم ہے؟ اور کیا اس میں بھی نصاب ہے؟ اور کیا صدقہ فطر میں جو غلہ نکالے جاتے ہیں وہ متعین ہیں؟ اور اگر متعین ہیں تو کیا کیا ہیں؟ اور کیا مرد پر گھر بھر کی جانب سے، جن میں بیوی اور خادم بھی ہیں، صدقہ فطر نکالنا واجب ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
صدقہ فطر ہر مسلمان پر فرض ہے، خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا، مرد ہو یا عورت، آزاد ہو یا غلام، ابن عمر رضی اللہ عنہ کی صحیح حدیث ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر مسلمان مرد اور عورت، چھوٹے اور بڑے، آزاد اور غلام پر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَو صدقہ فطر فرض قرار دیا ہے اور مسلمانوں کے نماز عید کے لئے نکلنے سے پہلے ادا کر دینے کا حکم دیا ہے۔" (متفق علیہ)
صدقہ فطر کے لئے نصاب شرط نہیں بلکہ ہر وہ مسلمان جس کے پاس اپنے لئے اور اپنے بال بچوں کے لئے ایک دن اور ایک رات کی خوراک سے زائد غلہ ہو اسے اپنی طرف سے اور اپنے گھر والوں کی طرف سے جن میں اس کے بچے، بیویاں اور زر خرید غلام اور لونڈی شامل ہیں، صدقہ فطر نکالنا ہو گا۔
وہ غلام جسے اجرت، تنخواہ پر رکھا گیا ہو وہ اپنے صدقہ فطر کا خود ذمہ دار ہے۔ اِلا یہ کہ مالک بطور احسان اپنی طرف سے ادا کر دے، یا غلام نے مالک پر صدقہ فطر کی شرط لگا رکھی ہو لیکن زر خرید غلام کا صدقہ فطر تو جیسا کہ حدیث میں مذکور ہوا، مالک کے ذمہ ہے۔ صدقہ فطر کا علماء کے صحیح ترین قول کے مطابق شہر کی خوراک کی جنس سے نکالنا ضروری ہے، خواہ وہ کھجور ہو یا جَو، گیہوں ہوں یا مئی ہو یا اس کے علاوہ کوئی اور غلہ ہو اور اس لئے بھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارے میں کسی خاص قسم کے غلے کی شرط نہیں رکھی ہے اور اس لئے بھی کہ اس سے غرباء و مساکین کے ساتھ ہمدردی مقصود ہوتی ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب