سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(138) علاقائی زبانوں میں خطبہ جمعہ

  • 22571
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 937

سوال

(138) علاقائی زبانوں میں خطبہ جمعہ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا جمعہ کے دونوں خطبوں میں عربی کے علاوہ اور کوئی زبان استعمال کر کے مخاطبین کو مسائل سمجھائے جا سکتے ہیں۔ صحابہ کرام مختلف علاقوں میں پھیلے تھے انہوں نے وہاں جا کر کون سی زبان استعمال کی تھی اس مسئلہ کی وضاحت کریں۔ (تجمل حسین شوکت، تلہ گنگ)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

خطبہ کا مقصود سامعین و حاضرین کو وعظ و نصیحت ہے جس بیان میں افہام (سمجھانا) نہ ہو وہ تو وعظ ہی نہیں ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء و رسل علیہم الصلاۃ والسلام کو ان کی قوم کی زبان سمجھا کر بھیجا، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"اور ہم نے کوئی بھی رسول نہیں بھیجا مگر اس کی قومی زبان کے ساتھ تاکہ ان کے سامنے وضاحت سے بیان کر دے۔" (ابراہیم: 4)

اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ خطاب کرنے والے حضرات کا خطبہ تب ہی مؤثر ہو گا جب وہ سامعین کی زبان میں ہو گا اور اگر سامعین کی زبان کچھ اور ہو اور خطیب کی کچھ تو سامعین کو اس وعظ کا کوئی فائدہ نہ ہو گا اور مقصود فوت ہو جائے گا۔ صحیح مسلم وغیرہ میں خطبہ جمعہ کی حدیث میں ہے کہ " يقرأ القرآن ويُذَكِّر الناس " رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن پڑھتے اور لوگوں کو وعظ کرتے۔ اور ظاہر ہے کہ افہام (سمجھانا) نہ ہو تو وعظ ہی نہیں ہوتا اور لفظ خطبہ بھی اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ سامعین کی زبان کا لحاظ رکھنا چاہیے کیونکہ خطبہ خطاب سے ہے اور خطاب پر صرف عربی زبان کی پابندی اصل مقصود کو فوت کرتی ہے جو خطاب سے مقصود ہوتا ہے فتاویٰ شامی 1/543 میں مذکورہ مسئلہ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ "مصنف نے خطبہ کے عربی میں ہونے کی قید نہیں لگائی کیونکہ باب صفۃ الصلاۃ میں گزر چکا ہے کہ امام ابو حنیفہ کے نزدیک یہ شرط نہیں خواہ سامعین عربی پر قادر ہی ہوں برخلاف صاحبین کے کیونکہ ان کے نزدیک عربی میں ہونا شرط ہے مگر عربی سے عاجز ہو تو پھر صاحبین کے نزدیک بھی غیر عربی میں جائز ہے"۔ معلوم ہوا کہ ائمہ احناف کے ہاں بھی خطبہ کے لئے عربی زبان شرط نہیں۔ صحابہ کرام میں عربی زبان کے علاوہ خطبہ دینے کی مثال اس لئے نہیں کہ ان کی اور ان کے سامعین کی زبان عربی تھی۔ (مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو حافظ عبداللہ محدث روپڑی رحمۃ اللہ علیہ کا فتاویٰ ص 371 تا 378 جلد دوم)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

تفہیمِ دین

کتاب الجمعہ،صفحہ:184

محدث فتویٰ

تبصرے