سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(104) فرض سے قبل نفلی رکعتوں کا بیان

  • 22537
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-05
  • مشاہدات : 638

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا عصر کی نماز سے پہلے چار رکعت نماز ادا کرنا کسی صحیح حدیث سے ثابت ہے اس طرح مغرب کی نماز سے پہلے دو رکعت ادا کرنے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عصر کی نماز سے پہلے چار رکعت نماز صحیح حدیث سے ثابت ہے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(رحم الله امرئ صلى قبل العصر أربعاً)

"اللہ اس آدمی پر رحم کرے جس نے عصر سے پہلے چار رکعت ادا کیں۔"

(ترمذی، کتاب الصلوۃ، باب ما جاء فی الاربع قبل العصر (430) ابوداؤد 1251، مسند احمد 2/115 ابن خزیمہ 1193، ابن حبان 616)

اس کے متعلق بسند حسن علی رضی اللہ عنہ سے روایت بھی ہے کہ

(كَانَ النَّبِي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم َ يُصَلِّي قبل الْعَصْر أَربع رَكْعَات يفصل بَينهُنَّ بِالتَّسْلِيمِ عَلَى الْمَلَائِكَة المقربين وَمن تَبِعَهُمْ من الْمُسلمين وَالْمُؤمنِينَ)

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصر سے پہلے چار رکعت نماز پڑھتے تھے اور دو رکعتوں کے درمیان ملائکہ مقربین اور ان کی اتباع کرنے والے مسلمانوں، مومنوں پر سلام کے ذریعے فاصلہ کرتے تھے۔

(مسند احمد 1/80، 142، 143، 146، ابن ماجہ 1161 ترمذ 429، 598، 599)

ان ہر دو قولی اور فعلی احادیث سے ثابت ہوا کہ عصر سے پہلے چار رکعت ادا کرنا بالکل جائز اور درست ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ رکعات ادا کرنے والے کے لئے رحم کی دعا کی ہے اور خود بھی اس پر عمل کیا ہے۔

اسی طرح مغرب سے پہلے دو رکعت نفل ادا کرنا بھی صحیح و درست ہے اور قولی و فعلی دونوں حدیثوں سے ثابت ہے صحیح البخاری میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مغرب سے پہلے نماز پڑھو، مغرب سے پہلے نماز پڑھو تیسری بار فرمایا جو چاہے پڑھ لے، یہ آپ نے اس لئے کہا کہ کہیں لوگ اسے مستقل سنت نہ بنا لیں۔ صحیح ابن حبان وغیرہ میں عبداللہ المزنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب سے پہلے دو رکعت نماز ادا کی۔ (صحیح ابن حبان 615 موارد الظمآن)

لہذا یہ دو رکعت بھی اگر کوئی ادا کرنا چاہے تو بالکل جائز اور درست ہے اس میں کوئی اشکال نہیں ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

تفہیمِ دین

کتاب الصلوٰۃ،صفحہ:150

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ