السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جو شخص کسی ہمسایہ کے گھر میں تانک جھانک کرے وہ امامت کرانے کا اہل ہے یا نہیں قرآن و حدیث کی روشنی میں تفصیل سے جواب عنایت فرمائیں۔ (غلام مصطفیٰ انجم احباب کالونی)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بشرط صحت سوال ایسا امام جو کسی کے گھر میں تانک جھانک کرے اسے امامت کا حق نہیں ہے۔ امام اعلیٰ صفات کا مالک ہونا چاہیے جیسا کہ سنن الدارقطنی میں حدیث ہے کہ اپنے میں سے بہتر شخص کو امام بناؤ اور نظر بازی شرعا حرام ہے اور فعل حرام کا ارتکاب بالخصوص امام کے لئے تو قطعا درست نہیں اور ایسا امام تو مقتدیوں کی نظر میں بھی مقام کھو دیتا ہے اور مقتدی اس سے کراہت کرنے لگ جاتے ہیں اس کے متعلق یہ حدیث پیش نظر رہے۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔
"تین آدمیوں کی نماز ان کے سروں سے اوپر ایک بالشت بھی نہیں اٹھائی جاتی۔" (ابن ماجہ 971، المعجم الکبیر 3/154/2)
ان میں سے ایک آدمی وہ ہے جس نے کسی قوم کی امامت کی اور وہ اسے ناپسند کرتے ہوں اس حدیث کو امام نووی، امام عراقی اور علامہ بوصیری نے حسن اور صحیح قرار دیا ہے اور شیخ البانی نے مشکوٰۃ کی تحقیق میں اسے شواہد کی بنا پر حسن قرار دیا ہے اور یہ یاد رہے کہ امام کے ساتھ تعصب مذہبی اور بلاوجہ کوئی عداوت نہ ہو۔ علامہ البانی رحمۃ اللہ اس حدیث پر لکھتے ہیں۔
امام کی نماز اوپر اس لئے نہیں اٹھائی جاتی کہ وہ امامت کے حق کو قائم نہیں کر رہا اور جب مقتدیوں کا اس کے ساتھ معاملہ مذہبی تعصب کی وجہ سے ہو تو یہ چیز اس میں داخل نہیں۔ (تحقیق ثانی مشکوٰۃ 2/8)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ امام شرعی عذر کی بنا پر مقتدیوں کے ہاں ناپسندیدہ ہو جائے تو وہ امامت کے حق کو قائم نہیں کر رہا۔ اسے اس صورت میں امام رہنے کا حق نہیں۔
مسجد کی انتظامیہ کو چاہیے کہ ایسے امام کی کوتاہی پر اسے متنبہ کریں اور اخلاص کے ساتھ اس کی اصلاح کریں اگر وہ اپنی حرکات سے باز نہ آئے تو اسے امامت سے معزول کر دیں اور کسی مخلص، دیانتدار اور شریف باعمل شخص کا امامت کے لئے انتخاب کریں جو قرآن حکیم اور حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا علم رکھنے کے ساتھ باعمل ہو۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب