السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جب فرض نماز کے لیے تکبیر کہہ دی جائے تو کیا اس وقت سنت ادا کرنا جائز ہے بعض لوگ جب جماعت کھڑی ہو جاتی ہے اس وقت بھی سنت ادا کرتے رہتے ہیں کیا اس کی شریعت میں کوئی گنجائش ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جب فرض نماز کے لئے اقامت کہہ دی جائے تو فرض کے علاوہ کوئی نماز نہیں ہوتی کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے "جب فرض نماز کے لیے اقامت کہہ دی جائے تو فرض نماز کے علاوہ کوئی نماز نہیں۔" (صحیح مسلم، کتاب الصلاۃ) عبداللہ بن مالک بن بحینہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں بےشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک آدمی کے پاس سے گزرے وہ نماز پڑھ رہا تھا اور صبح کی نماز کے لیے اقامت کہہ دی گئی، آپ نے اس سے کوئی بات کی ہم نہیں جانتے تھے کہ وہ بات کیا ہے؟ جب ہم نماز سے پھرے تو اسے گھیر لیا ہم کہنے لگے تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا کہا ہے اس نے کہا آپ نے مجھے کہا ہے کہ ممکن ہے تم میں سے ہر کوئی صبح کی چار رکعت پڑھنے لگے۔(صحیح مسلم 65/811)
عبداللہ بن سرجس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک آدمی مسجد میں داخل ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز میں تھے اس نے مسجد کے ایک کونے میں نماز ادا کی پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز میں شامل ہو گیا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا تو آپ نے فرمایا اے فلاں شخص دو نمازوں میں سے تو نے کون سی نماز شمار کی ہے؟ یا وہ نماز جو تم نے اکیلے ادا کی یا جو ہمارے ساتھ ادا کی؟ (صحیح مسلم 68/812)
علامہ غلام رسول سعیدی بریلوی اس باب کی احادیث کی تشریح میں لکھتے ہیں "اس باب کی احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز فجر کی اقامت کے وقت سنتیں پڑھنے سے منع فرمایا ہے اور اس وقت سنتیں پڑھنے والے شخص کو فرض پڑھنے والا قرار دیا اور اس میں تنبیہ ہے جس وقت فرض پڑھے جا رہے ہوں اس وقت فرض ہی پڑھنے چاہئیں۔ (شرح صحیح مسلم 2/420) پھر آگے لکھتے ہیں۔
"یہ انتہائی غلط طریقہ مروج ہے کہ مسجد میں فجر کی جماعت کھڑی ہوتی ہے اور لوگ جماعت کی صفوں سے متصل ہو کر سنتیں پڑھنا شروع کر دیتے ہیں اس میں ایک خرابی یہ ہے کہ امام با آواز بلند قرآن پڑھ رہا ہے جس کا سننا فرض ہے اور سنتوں میں مشغول اس فرض کو ترک کر رہا ہے، دوسری خرابی یہ ہے کہ سنتوں میں مشغول شخص بظاہر فرض اور جماعت سے اعراض کر رہا ہے اور تیسری خرابی یہ ہے کہ اس کا یہ عمل اس باب کی احادیث کی مخالفت کو مستلزم ہے"۔ (شرح صحیح مسلم 2/421)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب