السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جب مسلمانوں کے ہاں بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں تکبیر کہتے ہیں کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی صحیح حدیث میں اس کا ذکر موجود ہے۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
راقم الحروف کے علم کی حد تک اس کے بارے میں کوئی صحیح مرفوع حدیث موجود نہیں اس سلسلہ میں جو تین روایات پیش کی جاتی ہیں وہ قابل استناد نہیں۔ ایک روایت ابو رافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ "میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ نے حسن بن علی رضی اللہ عنہ کے کان میں اذان کہی جب انہیں فاطمہ رضی اللہ عنہا نے جنم دیا۔ (ترمذی ابواب الاضاحی 1514، ابوداؤد 5105)
اس روایت کی سند میں عاصم بن عبیداللہ راوی ہے جس کے ضعف پر تقریبا تمام محدثین متفق ہیں۔ حافظ ابن حجر التلخیص الحبیر کتاب العقیقہ رقم 1985، 4/368ط جدید میں رقمطراز ہیں اس روایت کا دارومدار عاصم بن عبیداللہ پر ہے اور وہ ضعیف راوی ہے، عاصم پر کلام کے لئے دیکھیں (تہذیب التہذیب 3/35، 36) بعض اہل علم نے اس روایت کی تقویت کے لئے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت پیش کی ہے کہ بےشک نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن بن علی رضی اللہ عنہ کے کان میں ان کی ولادت کے دن اذان کہی اور بائیں کان میں اقامت کہی (سلسلہ ضعیفہ 1/331 ارواء الغلیل 4/401) اور اسے ابو رافع رضی اللہ عنہ کی روایت کا شاہد ہونے کی امید ظاہر کی ہے۔ امام بیہقی نے اگرچہ اسے ضعیف قرار دیا ہے لیکن یہ ضعیف کی بجائے موضوع ہے۔ کیونکہ اس میں محمد بن یونس الکدیمی ہے جس کے بارے میں امام ابن عدی فرماتے ہیں یہ روایات گھڑنے کے ساتھ مہتم ہے امام ابن حبان فرماتے ہیں اس نے ہزار سے زائد روایات گھڑی ہیں اسی طرح اسے موسیٰ بن ہارون اور قاسم المطرز نے بھی اس کی تکذیب کی ہے۔ (میزان 4/74)
امام دارقطنی نے بھی اسےے روایات گھڑنے کی تہمت دی ہے لہذا یہ روایت موضوع ہونے کی وجہ سے شاہد بننے کے قابل نہیں ہے۔ اسی طرح اس میں کدیمی کا استاذ اور استاذ الاستاذ بھی ضعیف ہیں۔ اسی طرح حسین بن علی رضی اللہ عنہ سے مرفوع روایت ہے کہ "جس کے ہاں بچہ پیدا ہو وہ اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہے تو اسے ام الصبیان (بیماری ہے) تکلیف نہیں دے گی (شعب الایمان 8619) اس کی سند میں یحییٰ بن العلاء الرازی کذاب راوی ہے لہذا بچے کے کان میں اذان و اقامت والی روایات نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہیں۔ واللہ اعلم
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب