السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا سحری کے لیے اذان کہنا کسی حدیث سے ثابت ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سحری کے لیے اذان کہنا کئی ایک احادیث سے ثابت ہے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"بلاشبہ بلال رضی اللہ عنہ رات کو اذان دیتا ہے پس تم کھاؤ اور پیو، یہاں تک کہ عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ اذان دے۔ فرمایا: ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ نابینا تھے وہ اتنی دیر تک اذان نہیں دیتے تھے جب تک انہیں نہ کہا جائے تم نے صبح کر دی۔" (صحیح البخاری 617، 621، صحیح مسلم 1092)
سحری کی اذان اور صبح صادق میں اتنا وقت ضرور ہونا چاہیے کہ آدمی آسانی سے سحری کھا سکے قیام کرنے والا واپس پلٹ آئے اور سویا ہوا بیدار ہو جائے اور روزے کی تیاری کر لے۔ بلال رضی اللہ عنہ کی اذان کھانے پینے سے منع نہ کرتی تھی کیونکہ وہ صبح کاذب میں ہوتی تھی۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح البخاری کی کتاب الصوم باب قدرکم بین السحور و صلاۃ الفجر میں یہ مسئلہ سمجھانے کے لیے یہ حدیث نقل کی ہے کہ:
"ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ سحری کھائی پھر آپ نماز کے لیے اٹھے میں نے کہا: اذان اور سحری کے درمیان کتنا فاصلہ تھا؟ تو انہوں نے کہا: پچاس آیات کی مقدار۔" (صحیح البخاری: 1921)
انس رضی اللہ عنہ کی ایک اور صحیح حدیث اس مسئلہ کی توضیح کے لیے کافی ہے۔ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سحری کے وقت فرمایا: اے انس رضی اللہ عنہ میں روزے کا ارادہ رکھتا ہوں مجھے کوئی چیز کھلاؤ میں آپ کے پاس کھجور اور ایک پانی کا برتن لایا اور یہ بلال رضی اللہ عنہ کی اذان کے بعد تھا۔ پھر آپ نے فرمایا اے انس رضی اللہ عنہ کسی آدمی کو دیکھو جو میرے ساتھ مل کر کھائے میں نے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو بلایا وہ آئے اور کہا: میں نے ستو کا ایک گھونٹ بھر لیا اور میں روزے کا ارادہ رکھتا ہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں بھی روزے کا ارادہ رکھتا ہوں تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ سحری کی پھر کھڑے ہو گئے دو رکعت ادا کیں پھر نماز کے لیے نکلے۔ (سنن النسائی کتاب الصیام باب السحور بالسویق والتمر 2166)
اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ بلال رضی اللہ عنہ کی اذان کے بعد اتنا وقفہ ہوتا تھا کہ جس میں آدمی آسانی کے ساتھ سحری کا انتظام کر سکے جیسا کہ بلال رضی اللہ عنہ کی اذان کے بعد سحری کا انتظام کیا گیا پھر ایک اور آدمی کو تلاش کر کے لایا گیا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سحری کی۔ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ سحری کی اذان رمضان کے ساتھ ہی خاص نہیں ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب