سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(581) طلاق کی قسم کھانا

  • 2249
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1838

سوال

(581) طلاق کی قسم کھانا
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

محترم مفتی صاحب! میرا ایک دوست نفسیاتی مریض ہے اور زیر علاج ہے، موصوف کبھی یہ تسلیم نہیں کرتے کہ انہیں کوئی مرض لاحق ہے اور دوا لینے سے سخت نفرت کرتے ہیں۔ ڈاکٹر کی ہدایت پر ان کی دوا انہیں چائے وغیرہ میں ملا کر ان کی لاعلمی میں دی جاتی ہے اور اگر کبھی دوا نہ دی جا سکے تو ان پر پاگل پن کا شدید دورہ پڑ جاتا ہے حتی کہ نوبت گھر والوں کو مارنے پیٹنے اور برتن توڑنے تک جا پہنچتی ہے۔ انہیں کسی طرح شک ہوگیا ہے کہ گھر والے انہیں دوا پلاتے ہیں اور انہوں نے کہہ دیا ’’اگر تم میں سے کسی نے مجھے لاعلم رکھ کر دوا دی تو میری بیوی کو طلاق ہے‘‘۔ ان کی ہمشیرہ نے اس انتباہ کے بعد بھی انہیں چائے میں ملا کر دوا دے دی ہے۔ کیا اس طرح طلاق واقع ہو گئی؟ اگر ہاں، تو اس مسئلے کا کیا حل نکالا جائے کیونکہ دوا نہ دینے سے مرض کی شدت میں اضافے کا ڈر ہے۔ براہ مہربانی اس سوال کا جلد از جلد جواب دیجیے۔جزاکم اللہ خیرا۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس مسئلہ ميں علماء كرام كا اختلاف پايا جاتا ہے:

اكثر علماء كرام تو كہتے ہيں كہ طلاق واقع ہو جائيگى، كيونكہ يہ طلاق شرط پر معلق ہے، اور جب شرط واقع ہو جائے تو طلاق بھى ہو جائيگى۔ المغنى ( 7 / 372 )

ليكن بعض اہل علم جن ميں شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ شامل ہيں كا مسلک ہے كہ اگر طلاق قسم كى جگہ ہو اور طلاق دينے والا شخص كا مقصد كسى چيز پر ابھارنا اور كسى چيز سے منع كرنا ہو اور اس سے وہ طلاق مراد نہ لے تو قسم توڑنے كے وقت صرف اسے قسم كا كفارہ ادا كرنا ہوگا، اور طلاق واقع نہيں ہوگى۔

اور شيخ ابن باز رحمہ اللہ اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ نے بھى يہى فتوى ديا ہے، اس بنا پر آپ كے دوست كى نيت ديكھى جائيگى، اگر تو اس نے شرط پورى ہونے كى حالت ميں طلاق كى نيت كى تھى تو طلاق واقع ہوگئى، اور اگر اس نے اپنے آپ يا كسى دوسرے كو كسى چيز سے منع كرنا، يا پھر اپنے آپ يا كسى دوسرے كو كوئى كام كرنے پر ابھارنا مقصود ليا اور طلاق كا ارادہ نہ تھا، پھر اس نے قسم توڑ دى تو اس پر قسم كا كفارہ كى ادائيگى لازم ہے، اور اس سے طلاق واقع نہيں ہوگى۔

خاوند كو اللہ كا تقوى اور ڈر اختيار كرتے ہوئے طلاق كى قسم اٹھانے سے باز رہنا چاہيے، كيونكہ كثرت سے ايسا كرنے سے اپنى بيوى كے ساتھ حرام زندگى بسر كرنے تک لےجا سكتا ہے، اور يہ بيمارى آج كل عام ہو چكى ہے، كہ جس بيوى كو خاوند نے كئى بار طلاق دى اس كے ساتھ حرام زندگى بسر كرتا رہتا ہے، اور اپنے آپ كو بھى دھوكہ ديتا اور حرام زندگى گزارتا ہے، اور اولاد بھى حرام پيدا كرتا ہے، حالانكہ حقيقت ميں وہ زانى اور فاجر ہے اور وہ عورت بھى اسى طرح زانيہ اور فاجرہ، وہ اپنے دل ميں تمنائيں كرتے پھرتے ہيں، اور اولاد ہونے كى بنا پر اس چيز سے آنكھيں بند كر ليتے ہيں، اگر خاوند اپنى زبان كو قسم سے محفوظ ركھے تو اس كا معاملہ بڑا آسان رہتا۔

هذا ما عندي والله اعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

کتاب الصلاۃجلد 1

تبصرے