السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اگر مسلمان والدین اپنی وراثت میں غفلت دنیا اور معاشرے کی مجبوری کی بنا پر اپنے بال بچوں کی دینی تربیت نہ کر سکیں گھر میں بے پردگی کا آزادانہ ماحول رکھا اور سود کو نفع سمجھتے ہوئے اس سے اولاد کے لیے جائیداد بھی چھوڑ گئے اور گھر کے آزادانہ ماحول میں ڈش، ویڈیو، کیبل بچوں کے شوق پورا کرنے کے لیے لگا گئے ہوں کیا اب ان کی وفات کے بعد ان کے ورثہ سے ان کے لیے صدقہ و خیرات کر سکتے ہیں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(إِنَّ اللَّهَ طَيِّبٌ لَا يَقْبَلُ إِلَّا طَيِّبًا) (صحیح مسلم 1/326)
"بلاشبہ اللہ تعالیٰ پاک ہے اور پاک چیز ہی قبول کرتا ہے۔"
چونکہ متوفی کا مال سودی ہے اور سود نص قرآنی کے ساتھ حرام و ناپاک ہے۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگ ہے ایسے مال سے صدقہ قبول نہیں ہوتا اور کفارہ گناہ نہیں بن سکتا۔ ہاں پسماندگان کی دعاؤں سے میت کو فائدہ ہو سکتا ہے اگر اس کے پسماندگان اولاد وغیرہ ان غیر شرعی تکلفات و آلات وغیرہ کو ختم کر دیں اور توبہ و استغفار کی پابندی کر کے اپنی حالت شریعت کے مطابق بنا لیں اور رزق حلال کھانے کی کوشش کریں تو پھر مخلصانہ دعائیں آپ کے والدین کے لیے مفید ثابت ہو سکتی ہیں کیونکہ جس جسم کو حرام سے غذا دی گئی ہو یا لباس حرام پہنایا گیا تو ایسے شخص کی دعا قبولیت کے شرف سے محروم رہتی ہے۔ اگر آپ کے والدین سود کو حلال سمجھتے ہوں اور کفر یا شرک کی حالت میں اس دارفانی سے رخصت ہوئے ہوں تو پھر آپ کے صدقات و خیرات اور مخلصانہ دعائیں بھی بے سود اور غیر مفید ہیں یہ بھی یاد رہے کہ معاشرے کی مجبوری کوئی شرعی مجبوری نہیں کیونکہ مسلمان معاشرے کا پابند نہیں ہوتا بلکہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات اور اسلامی تعلیمات کا پابند ہوتا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا أَطيعُوا اللَّهَ وَأَطيعُوا الرَّسولَ وَلا تُبطِلوا أَعمـٰلَكُم ﴿٣٣﴾... سورة محمد
"اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال باطل نہ کرو۔"
اللہ تعالیٰ سب مسلمانوں کو صحیح عقیدہ، عمل صالح، رزق حلال، صدق مقال اور دین حنیف کی پابندی نصیب کرے۔ آمین
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب