سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(12) عورتوں کا مساجد میں تبلیغی پروگرام منعقد کرنا

  • 22445
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1675

سوال

(12) عورتوں کا مساجد میں تبلیغی پروگرام منعقد کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا عورتیں مساجد میں دینی و تبلیغی اجتماعات منعقد کر کے ایک دوسرے کو وعظ و نصیحت کر سکتی ہیں، جس طرح مرد مساجد میں جلسے اور کانفرنسیں کرتے ہیں؟ کتاب و سنت کی رو سےے مسئلے کی صحیح نوعیت واضح کریں۔ (ایک سائلہ، لاہور)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

دعوت و تبلیغ ہر مسلمان کا حق ہے خواہ وہ مرد ہو یا عورت، اللہ وحدہ لا شریک لہ نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر جس طرح مردوں کا وظیفہ ذکر کیا ہے اسی طرح عورتوں کے بارے میں بھی اس کا تذکرہ کیا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"مومن مرد و عورت آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ اچھی بات کا حکم کرتے ہیں اور بری بات سے روکتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ بہت جلد رحم فرمائے گا، بےشک اللہ تعالیٰ غلبے والا اور حکمت والا ہے۔" (التوبہ: 9/71)

اس آیت کریمہ میں یہ بات واضح طور پر بیان کی گئی ہے کہ مومن مرد اور مومنہ عورت کی صفات و خوبیوں سے ایک خوبی و صفت امر بالمعروف و نہی عن المنکر ہے جس طرح مرد کو اچھی بات کہنے اور بری بات سے روکنے کا حکم ہے اسی طرح عورت کو بھی یہ حق ہے کہ وہ اچھی بات کا حکم دے اور بری بات سے منع کرے۔ یاد رہے صدر اول میں مردوں کے اجتماعات شکل و صورت کے اعتبار سے ہمارے آج کے جلسوں اور کانفرنسوں کی طرح منعقد نہیں ہوتے تھے بلکہ ان کا جواز دعوت و تبلیغ کی عمومی آیات و احادیث سے ماخوذ ہے۔ اسی طرح عورتوں کا معاملہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ ان کے لیے بھی دعوت و تبلیغ کا ہر وہ طریقہ درست ہو گا جس میں شرعی حدود کا خیال رکھتے ہوئے اپنے گھر سے نکلیں گی مثلا عورت باپردہ ہو، مہکنے والی خوشبو لگا کر نہ نکلے، فیشن ایبل ہو کر نہ نکلے، مردوں سے اختلاط نہ ہو۔ اس طرح اجتماعات میں شریک نہ ہوں جیسے آج کل گلوکارائیں اور اداکارائیں فیشن ایبل ہو کر سٹیج پر نمودار ہوتی ہیں۔ یوں معلوم نہ ہو کہ وہ کسی فیشن شو یا حسن و آرائش کے مقابلہ کے لیے آئی ہیں بلکہ مکمل طور پر شرعی لباسوں میں ملبوس اور آرائش و نمائش سے مبرا ہو کر دعوت و تبلیغ کے اجتماعات میں آئیں اور اگر تبلیغی اجتماع گھر سے دور ہو تو ایسے سفر پر نکلنے کے لیے اپنے محرم کو ساتھ لے کر جائیں محرم کے بغیر سفر نہ کریں۔ ان تمام شرعی حدود کو مدنظر رکھ کر عورتیں مساجد میں اپنا دعوتی و تبلیغی پروگرام منعقد کر سکتی ہیں۔ مساجد دین اسلام کا شعائر ہیں اور ان کا مقصد انہیں آباد کرنا ہے اور مساجد کی آبادی نماز، روزہ، تلاوت، ذکر و اذکار، قرآن و سنت کی تعلیم و تبلیغ اور عبادات سے ہی ممکن ہے۔ جس طرح مسجد کو آباد کرنے کا مرد کو حق ہے، بالکل اسی طرح عورت کو بھی ہے۔

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"جب عورتیں تم سے اجازت طلب کریں تو ان کو مسجد کے حصہ سے منع نہ کرو۔" (مسلم، کتاب الصلوٰۃ، باب خروج النساء الی المساجد 140، 442)

اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ مساجد میں عورتوں کا بھی حصہ ہے اور اس عموم میں تبلیغی و اصلاحی اور اسلامی اجتماعات بھی شامل ہیں۔ اسی طرح عورتوں کا مسجد میں اعتکاف بیٹھنا اور مردوں کے پیچھے آ کر نماز پڑھنا اور عیدگاہ جو مسجد کے حکم میں ہے وہاں پر عورتوں کو حاضر ہونے کی تاکید کرنا اور بعض بے سہارا خواتین کا مسجد نبوی میں قیام کرنا وغیرہ امور اس بات کے مؤید ہیں کہ عورت کو بھی مسجد میں قیام کی اجازت ہے اور مسجد میں قیام کا مقصد مسجد میں ذکر اللہ، عبادات اور وعظ و نصیحت ہے لہذا عورتیں شرعی حدود میں رہتے ہوئے مرد و زن کے اختلاط سے اجتناب کرتے ہوئے مسجد میں تبلیغی اجتماع، دعوتی و اصلاحی پروگرام منعقد کر سکتی ہیں۔ اس میں کوئی شرعی مانع موجود نہیں۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

تفہیمِ دین

کتاب العقائد والتاریخ،صفحہ:43

محدث فتویٰ

تبصرے