السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک بیوی نے گھریلو اخراجات سے بچ جانے والے خاوند کے مال سے اس کے علم کے بغیر دو ہزار ریال سے زیادہ پس انداز کر لیے اس سے اس کا مقصد یہ تھا کہ اس کے خاوند کے ذمہ اس کے بھائی کا جو قرض ہے اس طرح وہ ادا ہو جائے گا۔ جب عورت نے اچانک خاوند کو اس بات سے آگاہ کیا تو وہ وقتی طور پر اس عمل سے خوش ہوا پھر معلوم ہوا کہ خاوند کچھ کبیرہ خاطر ہو رہا ہے۔ وہ بیوی پر شک بھی کرنے لگا اور اس پر اس کا اعتماد بھی ختم ہو گیا۔ حالانکہ وہ انتہائی دیندار اور مومنہ عورت ہے۔ اس کی نیت بھی اچھی تھی، لیکن بعض کینہ پرور لوگوں نے بیوی کے اس عمل کو خاوند کے سامنے غلط رنگ میں پیش کیا۔ اب عورت یہ معلوم کرنا چاہتی ہے کہ کیا وہ اس عمل پر گناہ گار ٹھہرے گی یا نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس عورت نے ایک اعتبار سے اچھا بھی کیا اور ایک اعتبار سے برا بھی۔ اچھا تو یوں کہ اس نے چاہا کہ کسی طرح اس کے خاوند کا دامن قرض سے پاک ہو جائے۔ وہ کسی شخص کے زیر بار تھا اس کی بیوی اس سے یہ بوجھ اتارنا چاہتی تھی۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ وہ اپنے بھائی کو فائدہ پہنچانا چاہتی ہو اس لیے کہ اس کا خاوند دوسروں کے حقوق کی ادائیگی میں ٹال مٹول سے کام لیتا ہے اور قدرت کے باوجود انہیں ادا نہیں کرنا چاہتا۔ اس نے چاہا کہ اس کے بھائی کو اس کا حق مل جائے کہ اسے اس کی ضرورت ہے اس کے لیے عورت نے یہ حیلہ اپنایا۔ دوسری طرف اس کا یہ عمل ایک طرح سے غلط بھی ہے وہ یوں کہ یہ عمل خیانت کے مترادف ہے۔ اس نے خفیہ طریقے سے خاوند سے کچھ مال حاصل کیا جسے وہ روز مرہ کی ضروریات کی تکمیل کے لیے وصول کیا کرتی تھی۔ ہم خاوند کو نصیحت کریں گے کہ وہ بیوی کو معذور سمجھے اور اس کے متعلق حسن ظن سے کام لے، اسے پھر اسے امانت دار اور قابل اعتماد سمجھے۔ شیخ ابن جبرین۔۔۔
ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب