السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میرے والد نے اپنی مملوکہ زرعی زمین اپنے مرنے کے بعد اپنے ایک بیٹے کے نام الاٹ کر دی، جبکہ اس بیٹے کے علاوہ اس کی چار بیٹیاں بھی ہیں کیا ایسا کرنا جائز ہے؟ اگر باپ کی زمین کو ایک بیٹے اور چار بیٹیوں میں تقسیم کیا جائے تو تقسیم کیسے ہو گی؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں میت کی وراثت کی تقسیم کا اصول بیان فرما دیا ہے:
﴿ يُوصِيكُمُ اللَّـهُ فِي أَوْلَادِكُمْ ۖ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ﴾ (النساء 4؍11)
’’ اللہ تمہیں تمہاری اولاد کے متعلق وصیت کرتا ہے ایک مرد کا حصہ دو عورتوں کے حصے کے برابر ہے ۔‘‘
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
( إِنَّ اللَّه قَدْ أَعْطَى كُلِّ ذِي حَقٍّ حَقَّهُ، فَلا وَصَيَّة لِوَارِثٍ) (ابوداؤد و کتاب الوصایا، والترمذی و کتاب الوصایا)
’’ اللہ تعالیٰ نے ہر حقدار کو اس کا حق دے دیا ہے، وارث کے لیے وصیت نہیں ۔‘‘
اس بناء پر ایک بیٹے کے نام باپ کی وصیت باطل ہے۔ لہذا اس کا نفاذ ناجائز ہے، ہاں اگر تمام شرعی ورثاء اس پر اپنی رضامندی اور موافقت کا اظہار کر دیں تو پھر کوئی حرج نہیں۔ لیکن اگر شرعی ورثاء ایسا نہ کریں تو اس سے زرعی زمین کو واپس لینا اور تمام ورثاء میں اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ اصول کے مطابق تقسیم کرنا ضروری ہے۔ یہ ترکہ تمام وارثوں پر تقسیم ہو گا اگر ایک بیٹے اور تین بیٹیوں کے علاوہ اور کوئی وارث نہ ہو تو ﴿لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ﴾ (النساء 4؍11)کے اصول کے تحت ترکہ تقسیم ہو گا۔ اس کھیت کی قیمت تقسیم کی جائے گی اور میت نے جو حصے ترکے میں چھوڑے ہیں تو ہر لڑکی کو ایک حصہ اور لڑکے کو دو حصے ملیں گے۔ شیخ محمد بن صالح عثیمین۔۔۔
ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب