السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اجتماعی مجلس درود کا کیا حکم ہے؟ الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤالوعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته! الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!نبى كريمﷺپر درود پڑھنا سب سے افضل اور بہتر ین عمل ہے، اللہ سبحانہ و تعالى نے اس كا حكم ديا اور ايسا كرنے والوں كى تعريف كى، اور اسے مغفرت و بخشش و حاجات كے پورے ہونےكا باعث و سبب بنايا ہے. اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے: ﴿إِنَّ اللَّهَ وَمَلـٰئِكَتَهُ يُصَلّونَ عَلَى النَّبِىِّ ۚ يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا صَلّوا عَلَيهِ وَسَلِّموا تَسليمًا ٥٦﴾.... سورة الاحزاب’’اللہ سحانہ و تعالى اور فرشتے نبى (ﷺ) پر رحمتيں بھيجتے ہيں، اے ايمان والو تم بھى اس ( نبىﷺ) پر درود و سلام بھيجا كرو‘‘ اور رسول كريمﷺ كا فرمان ہے: «فَإِنَّهُ مَنْ صَلَّى عَلَيَّ صَلَاةً صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ بِهَا عَشْرًا » رواه مسلم 384" جس نے بھى مجھ پر ايک بار درود پڑھا اللہ تعالى اس پر اس كے بدلے دس رحمتيں نازل كرتا ہے " اور ابى بن كعب بيان كرتے ہيں كہ جب رات كے دو حصے گزر جاتے اور ايک تہائى باقى رہ جاتى تو رسول كريم صلى اللہ عليہ بيدار ہوتے اور كہتے: " اے لوگو ! اللہ كا ذكر كرو، اللہ كا ذكر كرو، صور ميں نفخہ اولى پھونكنا قريب ہے، اور پھر دوسرا نفخہ بھى قريب ہے، موت اور اس ميں جو سختياں ہيں وہ قريب ہے، موت اور اس ميں جو سختياں ہيں وہ آئى كہ آئى. ابى بن كعب عنہ بيان كرتے ہيں ميں نے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسولﷺ میں آپ پر درود كثرت سے پڑھتا ہوں، تو اپنى دعاء میں آپ پر درود كتنا پڑھوں، رسول كريمﷺنے فرمايا: جتنا چاہو!! وہ بيان كرتے ہيں میں نے عرض كيا: تو پھر ايک چوتھائى حصہ كر لوں ؟ آپ ﷺ نے فرمايا: جتنا چاہو، اگر اس سے زيادہ كر لو تو تمہارے ليے بہتر ہے !! وہ بيان كرتے ہيں میں نے عرض كيا: نصف كر لوں ؟ ! رسول كريمﷺ نے فرمايا: جتنا چاہو، اور اگر زيادہ كر لو تو يہ تمہارے ليے بہتر ہے !! وہ بيان كرتے ہيں میں نے عرض كيا: تو پھر دو تہائى حصہ كر لوں ؟ آپﷺنے فرمايا: جتنا چاہو، اگر اس سے زيادہ كر لو تو تمہارے ليے بہتر ہے !! ميں نے عرض كيا: اے اللہ كے رسولﷺ تو پھر میں اپنى سارى دعا میں ہى آپ پر درود پڑھتا رہوں ؟ رسول كريمﷺنے فرمايا: تو پھر يہ درود تيرے غم و پريشانى كے ليے كافى ہو جائيگا، اور تيرے گناہوں كى بخشش كا باعث ہو گا " سنن ترمذى حديث نمبر ( 2457 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے. لیکن سنت نبوی سے اجتماعی مجلس درود کی کوئی دلیل نہیں ملتی۔ لہذا یہ عمل بدعت کے زمرے میں آتا ہے۔ رسول اکرمﷺکے ارشاد کے مطابق دین میں ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے۔ اتنی سخت وعیدیں ہونے کے باوجود آج مسلمانوں کی اکثریت دین کے نام پر بدعات کا شکار ہے۔ "مجلس ذکر و درود" بھی اسی سلسلہ کا ایک شاخسانہ ہے۔ اللہ کے ذکر کے نام پر سادہ لوح مسلمانوں کو اکٹھا کر کے بدعات کا رسیا بنایا جاتا ہے۔ ان خودساختہ مصنوعی اذکار کی اتنی فضیلت بیان کی جاتی ہے کہ اللہ تعالٰی کے بجائے حضرت صاحب اور پیر صاحب سے تعلق گہرا ہوتا ہے۔ پھر امر بھی انہی کا چلتا ہے اور اطاعت بھی۔ قرآن کے مطابق یہی تو پیروں کو رب بنانا ہے۔ هذا ما عندي والله اعلم بالصوابفتاویٰ علمائے حدیثکتاب الصلاۃجلد 1 |