سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(569) جہری نمازوں میں سورہ فاتحہ پڑھنے کا حکم

  • 2237
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 1256

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

فاتحہ خلف الامام کا طریقہ کیا ہے؟جہری نمازوں میں آخری دو رکعتوں میں فاتحہ پڑھی جاتی ہے کہ نہیں؟ ظہر اور عصر کی نماز میں فاتحہ کے ساتھ کوئی سورت ملا کر پڑھیں (حضرت جابر کی حدیث بروایت ابن ماجہ) یا صرف فاتحہ پڑھیں.براہ کرم مفصل طریقہ بتائیں؟اللہ آپ کو اجر دے.؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آپ کا سوال متعدد حصوں پر مشتمل ہے،جن کا بالترتیب جواب درج ذیل ہے:

۱۔اس کو پڑھنے کا طریقہ یہ ہے کہ امام جب سورۃ فاتحہ سے فارغ ہو جائے ،تو كسى دوسرى سورۃ كے شروع كرنے سے قبل مقتدى سورۃ فاتحہ پڑھ لے، يا پھر سكتوں كے درميان پڑھ لے.

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" جب امام پڑھے تو خاموشى اختيار كى جائے اور جب امام خاموش ہو تو مقتدى پڑھے " اھـ

شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

امام كے سكتوں سے مراد يہ ہے كہ جو سكتے اور خاموشى سورۃ فاتحہ كى آيات كے درميان اختيار كى جاتى ہے، يا پھر سورۃ فاتحہ پڑھنے كے بعد سكتہ ہوتا ہے، اس كے بعد والى سورۃ كے بعد، اور اگر امام خاموش نہيں ہوتا تو علماء كرام كا صحيح قول يہ ہے كہ: مقتدى پر سورۃ فاتحہ پھر بھى پڑھنى واجب ہے، چاہے امام كى قرآت كے دوران ہى پڑھے.[فتاوى الشيخ ابن باز ( 11 221 ). ]

۲۔نماز ميں سورۃ فاتحہ كى قرآت واجب اور ضروری ہے کیونکہ وہ نماز كے اركان ميں سے ايک ركن ہے، چاہے نمازى امام ہو يا مقتدى ، يا منفرد؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

«لا صَلاة لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ»(صحيح بخارى: 714 )

" جس نے فاتحہ الكتاب نہ پڑھى اس كى كوئى نماز نہيں "

اور جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے غلط طريقہ سے نماز ادا كرنے والے صحابى كو نماز سكھائى تو اسے سورۃ فاتحہ پڑھنے كا حكم ديا تھا.

اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے صحيح ثابت ہے كہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم ہر ركعت ميں سورۃ فاتحہ كى قرآت فرمايا كرتے تھے.

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالى " فتح البارى " ميں كہتے ہيں:

" مقتدى كے ليے جھرى نمازوں ميں بغير كسى قيد كے سورۃ فاتحہ پڑھنے كى اجازت ثابت ہے، يہ ان احاديث ميں ہے جو امام بخارى رحمہ اللہ تعالى نے جزء القرآۃ ميں اور ترمذى، ابن حبان وغيرہ نے درج ذيل حديث روايت كى ہے:

عن مكحول عن محمود بن الربيع عن عبادۃ:

مكحول محود بن ربيع سے بيان كرتے ہيں وہ عبادہ رضى اللہ تعالى عنہ سے كہ:

فجر كى نماز ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر قرآت بوجھل ہو گئى اور جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو فرمايا:

لگتا ہے آپ اپنے امام كے پيچھے پڑھتے ہو ؟

تو ہم نے جواب ديا: جى ہاں.

چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے:

«فَلَا تَفْعَلُوا إِلا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ , فَإِنَّهُ لا صَلاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِهَا» ا.هـ .

سورۃ فاتحہ كے علاوہ ايسا نہ كيا كرو، كيونكہ جو اسے ( سورۃ فاتحہ ) نہيں پڑھتا اس كى نماز ہى نہيں ہوتى " اھـ

مستقل فتوى كميٹى سے اسى طرح كا سوال كيا گيا تو اس كا جواب تھا:

" اہل علم كے اقوال ميں سے صحيح قول يہى ہے كہ نماز ميں امام، مقتدى اور منفرد پر جھرى اور سرى نمازوں ميں سورۃ فاتحہ پڑھنى واجب ہے، كيونكہ اس كے دلائل صحيح ہيں، اور يہ فرمان بارى تعالى:

﴿ اور جب قرآن پڑھا جائے تو سنو اور خاموش رہو تا كہ تم تم پر رحم كيا جائے ﴾.

يہ عام ہے، اور اسى طرح رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان:

" اور جب وہ قرآن پڑھے تو خاموش رہو "

يہ بھى سورۃ فاتحہ وغيرہ ميں عام ہے، جسے درج ذيل حديث مخصوص كرتى ہے:

" جس نے فاتحۃ الكتاب نہ پڑھى اس كى نماز ہى نہيں "

ثابت شدہ دلائل ميں جمع كرتے ہوئے.

اور درج ذيل حديث:

« من كان له إمام فقراءة الإمام له قراءة »

" جس كا امام ہو تو امام كى قرآت اس كے ليے قرآت ہے "

يہ حديث ضعيف ہے، اور يہ قول بھى صحيح نہيں كہ: امام كى سورۃ فاتحہ كى قرآت كے بعد مقتديوں كا آمين كہنا سورۃ فاتحہ كے قائم مقام ہے، اس سلسلہ ميں علماء كرام كے اختلاف كو آپس ميں بغض و عناد اور تفرقہ و عليحدگى كا باعث بنانا صحيح نہيں، بلكہ آپ كو مزيد علم كى تحصيل اور اس پر اطلاع كى ضرورت ہے.

مذکورہ دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ نمازی خواہ امام ہو،منفرد ہو، یا مقتدی ہو،اس پر ہر نماز کی ہر رکعت میں سورۃ الفاتحہ پڑھنا ضروری اور واجب ہے، ۔اور اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔

۳۔ ظہر اور عصر کی نمازوں میں پہلی دو رکعات میں سورہ فاتحہ کے ساتھ کوئی دوسری سورت ملائی جائے گی،جبکہ آخری دو میں نہیں ملائی جائے گی۔

هذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

کتاب الصلاۃجلد 1

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ