السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک عورت پرانا سونا لے کر سونے کی مارکیٹ میں جاتی ہے اور صراف (سنار) سے کہتی ہے کہ اس کی قیمت کا اندازہ لگاؤ جب وہ اس کی قیمت کا اندازہ کر لیتا ہے تو کہتی ہے کہ اس کی قیمت کے بدلے مجھے نیا سونا دے دو۔ کیا اس طریقہ کار میں شریعت اسلامیہ کے مخالف کوئی چیز ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ معاملہ ناجائز ہے، اس لیے کہ یہ سونے کے بدلے سونے کی بیع ہے اور تماثل کا علم نہیں جو کہ معاملے کی صحت کے لیے شرط ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
(الذَّهَبُ بِالذَّهَبِ، مِثْلًا بِمِثْلٍ، سَوَاءً بِسَوَاءٍ وَزْنًا بِوَزْنٍ يَدًا بِيَدٍ فمَنْ زَادَ أَوِ اسْتَزَادَ فَقَدْ أَرْبَى ) (صحیح مسلم)
’’ سونا سونے کے بدلے (فروخت ہو سکتا ہے) جبکہ وہ مثل بمثل (ایک جیسا) ہو، یا برابر ہو، ہم وزن ہو، اور نقد در نقد ہو۔ جو زیادہ دے یا زیادہ طلب کرے تو اس نے سود کا ارتکاب کیا ۔‘‘
اس لیے سونے کو زیادہ سونے کے بدلے فروخت کرنا جائز نہیں ہے، کیونکہ یہ اس تماثل سے مانع ہے جو کہ ایسے معاملے کی صحت کے لیے شرط ہے۔ اس کے متعلق شرعی طریقہ کار یہ ہے کہ وہ اپنے پاس موجود سونے کو مستقل قیمت وصول کر کے فروخت کر دے، پھر اسی شخص سے یا کسی اور سے اپنی ضرورت کے مطابق سونا خرید لے، یہ معاملہ سود سے ہٹ کر ایک مستقل معاملہ ہوتا ہے۔
ایسے معاملات میں یوں کرنا بھی جائز ہے کہ آپ اس سے کرنسی نوٹوں یا چاندی کی کرنسی کے بدلے نقد سونا خرید لیں، یا نقدی کے علاوہ کسی اور چیز کے بدلے سونا خرید لیں چاہے وہ ایک معین عرصہ تک ادھار ہی کیوں نہ ہو، مثلا قہوہ، الائچی، چاول، چینی اور کپڑے وغیرہ کے بدلے، اس لیے کہ ان اشیاء اور سونے کے تبادلے میں سود نہیں ہے۔ والله ولى التوفيق ۔۔۔شیخ ابن باز۔۔۔
ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب