السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جب ہم غیبت اور چغل خوری سے روکنا چاہیں تو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی وجہ سے وہ لوگ ہمیں برا بھلا کہتے ہیں اور ہم پر ناراض ہوتے ہیں، چاہے وہ والدین ہی کیوں نہ ہوں، تو کیا ان کی ناراضگی کی وجہ سے ہم گناہ گار ہوں گے؟ کیا ہم منع کرتے رہیں یا انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اہم ترین فرائض میں سے ایک ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ ﴾ (التوبة 9؍71)
’’ اور ایمان والے مرد اور ایمان والی عورتیں ایک دوسرے کے رفیق اور دوست ہیں بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے رہتے ہیں ۔‘‘
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر فرمایا ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر مومن مردوں اور عورتوں کا ضروری وصف ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ ۗ ﴾ (آل عمران 3؍110)
’’ تم بہترین جماعت ہو جو لوگوں کے لیے پیدا کی گئی ہے، تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو ۔‘‘
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
(مَنْ رَأَى مِنْكُمْ مُنْكَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ، وَذَلِكَ أَضْعَفُ الْإِيمَانِ) (صحیح مسلم، کتاب الایمان حدیث 78)
’’ تم میں سے جو شخص بھی برائی کو دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ سے روک دے، اگر اس کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو زبان سے روکے اور اگر اس کی استطاعت نہ ہو تو دل سے برا سمجھے اور یہ کمزور ترین ایمان ہے ۔‘‘
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ سر انجام نہ دینے اور اس ذمہ داری کو نہ نبھانے والوں کی مذمت میں بہت ساری آیات اور احادیث وارد ہیں۔
لہذا آپ پر اور ہر مومن مرد عورت پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر واجب ہے، اگرچہ جنہیں تم روکتے ہو وہ ناراض ہی کیوں نہ ہوں۔ اگر وہ تمہیں گالیاں دیں تو انبیاء علیہم السلام کی اقتداء میں صبر کریں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا:
﴿فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ أُولُو الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ ﴾ (الاحقاف 46؍35)
’’ آپ صبر کیجئے جیسا کہ اولو العزم رسولوں نے صبر کیا تھا ۔‘‘
نیز فرمایا:
﴿وَاصْبِرُوا ۚ إِنَّ اللَّـهَ مَعَ الصَّابِرِينَ ﴿٤٦﴾ (الانفال 8؍46)
’’ اور صبر کرو، یقینا اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہیں ۔‘‘
حضرت لقمان حکیم نے اپنے بیٹے سے کہا:
﴿يَا بُنَيَّ أَقِمِ الصَّلَاةَ وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنكَرِ وَاصْبِرْ عَلَىٰ مَا أَصَابَكَ ۖ إِنَّ ذَٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ ﴿١٧﴾ (لقمان 31؍17)
’’ میرے بیٹے نماز قائم کر اور اچھے کاموں کی نصیحت کیا کر اور برے کاموں سے منع کیا کر، اور جو کچھ پیش آئے اس پر صبر کیا کر بےشک یہ (صبر) ہمت کے کاموں میں سے ہے ۔‘‘
اور یہ بات شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ معاشرے کی اصلاح اور استقامت اللہ تعالیٰ کی نصرت اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے ہی ممکن ہے۔ معاشرتی بگاڑ، اس کی ٹوٹ پھوٹ اور عمومی عقوبت ایسی چیزوں کا ایک اہم ترین سبب امر بالمعروف اور نہی عن المنکر جیسے اہم فریضے کا ترک ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا:
(إِنَّ النَّاسَ إِذَا رَأَوُا الْمُنْكَرَ فَلَمْ يُغَيِّرُوهُ أَوْشَكَ أَنْ يَعُمَّهُمُ اللَّهُ بِعِقَابِهِ) (رواہ احمد 1؍ 2)
’’ لوگ جب برائی کو دیکھیں گے اور اسے نہیں روکیں گے تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں عمومی عذاب میں گرفتار کر لے ۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو کفار بنی اسرائیل کی سیرت و کردار سے خبردار کرتے ہوئے یوں فرمایا:
﴿لُعِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَىٰ لِسَانِ دَاوُودَ وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ۚ ذَٰلِكَ بِمَا عَصَوا وَّكَانُوا يَعْتَدُونَ ﴿٧٨﴾ كَانُوا لَا يَتَنَاهَوْنَ عَن مُّنكَرٍ فَعَلُوهُ ۚ لَبِئْسَ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ ﴿٧٩﴾ (المائدہ 5؍78-79)
’’ بنی اسرائیل کے کافروں پر داؤد اور عیسیٰ بن مریم علیہم السلام کی زبانی لعنت کی گئی۔ یہ اس لیے کہ انہوں نے برابر نافرمانی کی اور حد سے آگے نکل جاتے تھے۔ جو برائی انہوں نے اختیار کر رکھی تھی ایک دوسرے کو اس سے روکتے نہ تھے۔ جو کچھ بھی یہ کرتے تھے یقینا وہ بہت برا تھا ۔‘‘
ہم اللہ تعالیٰ سے دعاگو ہیں کہ وہ ہمیں (حاکم و محکوم سب کو) اس فریضہ کی بانداز احسن ادائیگی کی توفیق بخشے۔ ان کے احوال کی اصلاح فرمائے اور اہل اسلام کو اپنے غضب کے اسباب سے بچائے یقینا وہ سننے والا اور قبول فرمانے والا ہے۔
۔۔۔شیخ ابن باز۔۔۔
ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب