السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
محترم! آپ ان لوگوں کو کیا نصیحت کرنا چاہیں گے جو کئی ماہ تک بغیر کسی شرعی عذر کے قرآن مجید کو ہاتھ تک نہیں لگاتے؟ جبکہ غیر مفید اخبارات و رسائل کا مطالعہ باقاعدگی سے کرتے رہتے ہیں۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اہل ایمان خواتین و حضرات کے لیے تفکر و تدبر کے ساتھ کثرت سے تلاوت کلام پاک کرنا مسنون ہے، چاہے زبانی پڑھے یا قرآن مجید سے دیکھ کر، بہرحال اس کی تلاوت ضرور کرنی چاہیے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ إِلَيْكَ مُبَارَكٌ لِّيَدَّبَّرُوا آيَاتِهِ وَلِيَتَذَكَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ ﴿٢٩﴾ (ص 38؍29)
’’ یہ (قرآن) ایک بابرکت کتاب ہے، جس کو ہم نے آپ پر نازل کیا ہے تاکہ لوگ اس کی آیتوں میں غوروفکر کریں اور تاکہ عقل والے نصیحت حاصل کریں ۔‘‘
اسی طرح ارشاد ہے:
﴿إِنَّ الَّذِينَ يَتْلُونَ كِتَابَ اللَّـهِ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَنفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ سِرًّا وَعَلَانِيَةً يَرْجُونَ تِجَارَةً لَّن تَبُورَ ﴿٢٩﴾ لِيُوَفِّيَهُمْ أُجُورَهُمْ وَيَزِيدَهُم مِّن فَضْلِهِ ۚ إِنَّهُ غَفُورٌ شَكُورٌ ﴿٣٠﴾ (فاطر 35؍29-30)
’’ بےشک وہ لوگ جو کتاب اللہ کی تلاوت کرتے ہیں اور نماز کی پابندی رکھتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا ہے اس میں سے پوشیدہ اور علانیہ خرچ کرتے رہتے ہیں، وہ ایسی تجارت کی آس لگائے بیٹھے ہیں جو کبھی ماند نہ پڑے گی تاکہ وہ انہیں ان کے اعمال کا پورا پورا حصہ دے اور اپنے فضل سے کچھ زائد بھی دے، بےشک وہ بڑا بخشنے والا اور قدر دان ہے ۔‘‘
مذکورہ بالا آیت تلاوت کرنے اور عمل کرنے دونوں سے عبارت ہے۔ خلوص دل سے، تدبر اور تفکر کے ساتھ تلاوت کرنا اتباع کا ایک ذریعہ اور اجر عظیم کا باعث ہے۔ جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(اقْرَأُوا الْقُرْآنَ، فَإِنَّهُ يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ شَفِيعًا لِأَصْحَابِهِ) (صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین 252)
’’ قرآن پڑھا کرو کیونکہ وہ قیامت کے دن اصحاب قرآن کے لیے سفارش کرے گا ۔‘‘
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید فرمایا:
(خَيْرُكُم مَنْ تَعَلَّمَ القُرْآنَ وعَلَّمَهُ) (صحیح البخاری)
’’ تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو قرآن پڑھے اور پڑھائے ۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک اور ارشاد گرامی ہے:
(مَنْ قَرَأَ حَرْفًا مِنْ كِتَابِ اللَّهِ فَلَهُ بِهِ حَسَنَةٌ ، وَالحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا، لَا أَقُولُ الم حَرْفٌ، وَلَكِنْ أَلِفٌ حَرْفٌ وَلَامٌ حَرْفٌ وَمِيمٌ حَرْفٌ) (رواہ الترمذی فی کتاب ثواب القرآن باب 16)
’’ جس شخص نے قرآن کا ایک حرف پڑھا اسے ایک نیکی ملے گی اور ایک نیکی دس گنا شکل میں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ (الم) ایک حرف ہے بلکہ الف ایک حرف ہے اور لام ایک حرف ہے اور میم ایک حرف ہے ۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
(اقْرَإِ الْقُرْآنَ فِي كُلِّ شَهْرٍ فَقَالَ: إِنِّي أُطِيقُ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ،فَقَالَ:اقْرَأْهُ فِي سَبْعٍ) (صحیح البخاری، فضائل القرآن، باب 34 و ابو داؤد و رمضان)
’’ ہر ماہ میں ایک بار مکمل قرآن پڑھا کرو انہوں نے کہا میں اس سے زیادہ پڑھنے کی طاقت رکھتا ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سات دنوں میں پڑھ لے ۔‘‘
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا معمول تھا کہ وہ سات دنوں میں قرآن مجید مکمل کر لیا کرتے تھے۔ میری تمام تلاوت قرآن کرنے والوں کو وصیت ہے کہ وہ تدبر و تفکر اور خلوص دل کے ساتھ بکثرت تلاوت قرآن کیا کریں، اس کے ساتھ ہی ساتھ حصول علم اور فائدے کا بھی ارادہ کریں۔ وہ قرآن مجید کو ہر ماہ ختم کیا کریں اس سے کم مدت میں ختم کر سکیں تو یہ خیر کثیر ہے۔ سات دن سے کم مدت میں بھی ختم کیا جا سکتا ہے اور تین دن سے کم مدت میں ختم نہ کرنا زیادہ افضل ہے، کیونکہ یہ کم از کم مدت ہے جس کی تلقین نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو فرمائی تھی، نیز اس لیے بھی کہ اس سے کم مدت میں قرآن مجید ختم کرنا جلد بازی اور عدم تدبر کا باعث بن سکتا ہے۔
قرآن مجید بغیر طہارت کے دیکھ کر پڑھنا ناجائز ہے، جبکہ زبانی بلا وضوء پڑھنے میں کوئی حرج نہیں جہاں تک جنبی آدمی کا تعلق ہے تو وہ غسل کرنے تک نہ تو دیکھ کر پڑھ سکتا ہے اور نہ ہی زبانی، اس لیے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
(كان النبى صلى الله عليه وسلم، لَا يَحْجِزُهُ شَيْءٌ سِوَى الْجَنَابَةِ ) (رواہ احمد 1؍84 و ابوداؤد و کتاب الطھارۃ باب 91)
’’ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جنابت کے علاوہ کوئی چیز تلاوت قرآن سے نہیں روکتی تھی ۔‘‘ ۔۔۔شیخ ابن باز۔۔۔
ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب