السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
خوش طبعی کا کیا حکم ہے؟ کیا یہ لہو الحدیث کے ضمن میں آتی ہے؟ یہ صراحت ضروری ہے کہ ہمارا سوال ایسی خوش طبعی کے بارے میں جس میں دین کا استہزاء نہیں ہوتا۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اگر خوش طبعی مبنی بر حقیقت ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ خاص طور پر اگر اس میں بہتات بھی نہ ہو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خوش طبعی فرمایا کرتے تھے اور خلاف واقعہ کوئی بات نہ کرتے، رہی ایسی خوش طبعی جو جھوٹ سے عبارت ہو تو وہ جائز نہیں ہے۔ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
(وَيْلٌ لِلَّذِي يُحَدِّثُ فَيَكْذِبُ لِيُضْحِكَ بِهِ الْقَوْمَ، وَيْلٌ لَهُ وَيْلٌ لَهُ) (سنن ابی داؤد، سنن ترمذی و سنن نسائی)
’’ اس آدمی کے لیے بربادی ہے! جو لوگوں کو ہنسانے کے لیے جھوٹ بولتا ہے۔ اس کے لیے بربادی ہے۔ پھر اس کے لیے بربادی ہے ۔‘‘ شیخ ابن باز
ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب