السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
خضاب لگانے کا کیاحکم ہے؟خصوصاً کالے خضاب کا۔؟ الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤالوعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته! الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!بعض احادیث میں سفید بالوں میں خضاب لگانے کا حکم دیا گیا ہے۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’غیروا الشیب ولا تشبہوا بالیہود.‘‘ (جامع ترمذی، کتاب اللباس، باب ما جاء فی الخضاب) '' بڑھاپے کی سفیدی کو بدل دو، یہود جیسے نہ بنو۔'' اس مضمون کی حدیث بخاری (کتاب اللباس، ٥٨٩٩)، مسلم (کتاب اللباس، ٣۔٢١)، ابوداؤد (کتاب الترجل، ٤٢٠٣) اور نسائی (کتاب الزینہ ٥٠٦٩) میں بھی مروی ہے۔ دوسری بعض احادیث میں اس کی ممانعت آئی ہے۔ علما نے دونوں کے درمیان تطبیق دینے کی کوشش کی ہے۔ طبریؒ فرماتے ہیں: ''جن احادیث میں سفیدی کو بدلنے کا حکم دیا گیا ہے اور جن میں اس کی ممانعت آئی ہے، دونوں صحیح ہیں۔ ان کے درمیان تناقض نہیں ہے۔ حکم اس شخص کے لیے ہے جس کے تمام بال سفید ہو گئے ہوں اور ممانعت اس شخص کے لیے ہے، جس کے ابھی چند ہی بال سفید ہوئے ہوں۔ اس معاملے میں علمائے سلف کا اختلاف احوال کے اختلاف کی بنا پر ہے۔ یہ بھی ملحوظ رہے کہ اس سلسلے میں حکم اور ممانعت دونوں بالاجماع وجوب کے لیے نہیں ہیں۔ اسی وجہ سے دو مختلف نقطہ ہائے نظر رکھنے والوں نے ایک دوسرے کا رد نہیں کیا ہے۔ (بہ حوالہ شوکانی، نیل الاوطار، ادارۃ الطباعۃ المنیریہ مصر، ١/١٤٦) اسی طرح بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خضاب کا استعمال کیا ہے اور بعض احادیث میں ہے کہ آپؐ نے کبھی خضاب کا استعمال نہیں کیا۔ ان دونوں میں بھی تطبیق دی گئی ہے۔ طبریؒ کہتے ہیں: آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول اکثر خضاب نہ استعمال کرنے کا تھا۔ البتہ بسا اوقات آپ نے اس کا استعمال کیا ہے۔ جن صحابہ نے آپؐ کو اس حال میں دیکھا انھوں نے صراحت سے بیان کر دیا کہ آپ خضاب کا استعمال کرتے تھے۔'' (نیل الاوطار ١/ ١٤٧) صدر اول میں جو چیزیں بطور خضاب مستعمل تھیں، ان میں سے حنا (مہندی)، زعفران، ورس اور کتم کا نام احادیث میں ملتا ہے۔ ورس ایک پودا ہے، جو رنگائی کے کام میں لایا جاتا ہے۔ اس کا رنگ ہلدی کے مثل زرد ہوتا ہے۔ کتم کا رنگ سرخی مائل سیاہ ہوتا ہے۔ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے خضاب کا استعمال ثابت ہے۔ حضرت عمر بن الخطابؓ صرف حنا کا خضاب لگایا کرتے تھے۔ حضرت ابو بکر ؓ حنا میں کتم کی بھی آمیزش کر لیا کرتے تھے۔ حضرت ابن عمر ؓ، حضرت ابو ہریرہؓ، حضرت علیؓ اور بعض دیگر صحابہ کے بارے میں مروی ہے کہ وہ زرد خضاب لگایا کرتے تھے۔ (نیل الاوطار ١/١٤٥) کالے خضاب کا کیا حکم ہے؟کالے خضاب کے بارے میں فقہا کے درمیان اختلاف ہے۔ شوافع عام حالات میں اسے حرام قرار دیتے ہیں۔ مالکیہ، حنابلہ اور احناف اسے حرام تو نہیں البتہ مکروہ کہتے ہیں۔ امام ابو حنیفہ کے شاگرد قاضی ابو یوسفؒ اس کے جواز کے قائل ہیں۔ حافظ ابن حجر ؒ کہتے ہیں: ''بعض علما نے سیاہ خضاب کے استعمال کو جائز قرار دیا ہے۔'' (ابن حجر، فتح الباری، دار المعرفہ، بیروت، ١٠/ ٣٥٤) ایک قول حضرت عمر بن الخطابؒ کے بارے میں مروی ہے کہ وہ کالا خضاب استعمال کرنے کا حکم دیتے تھے۔ (عبد الرحمن مبارک پوری، تحفۃ الاحوذی شرح جامع الترمذی، طبع دیو بند، ٥/ ٣٥٦)۔ متعدد صحابۂ کرام سے بھی اس کا استعمال ثابت ہے، مثلاً حضرت عثمان بن عفانؓ، حضرت مغیرہ بن شعبہؓ، حضرت عمرو بن العاصؓ، حضرت جریر بن عبد اللہؓ، حضرت سعد بن ابی وقاصؓ، حضرت حسنؓ، حضرت حسینؓ، حضرت عقبہ بن عامرؓ، حضرت عبد اللہ بن جعفرؓ۔ تابعین اور بعد کے مشاہیر میں ابن سیرینؒ، ابو بردہؒ، محمد بن اسحاقؒ صاحب المغازی، ابن ابی عاصمؒ اور ابن الجوزی بھی کالا خضاب استعمال کیا کرتے تھے۔ (تحفۃ الاحوذی، ٥/٣٥٥، علامہ مبارک پوری نے اور بھی بہت سے تابعین و مشاہیر کے نام تحریر کیے ہیں۔ ٥/ ٣٥٧۔ ٣٥٨) کتب حدیث و سیرت میں ایک روایت ملتی ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر حضرت ابو بکر صدیقؓ کے والد ابو قحافہ کو قبول اسلام کی سعادت حاصل ہوئی۔ اس وقت ان کی عمر تقریباً نوے سال تھی (ابن الاثیر الجزری، اسد الغابہ، دار الشعب، قاہرہ ٣/ ٥٨٣)۔ حضرت ابو بکرؓ انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے کر آئے۔ ان کے سر اور داڑھی کے بال بالکل ثغامہ کی مانند تھے (ثغامہ ایک درخت کا نام ہے جس کا پھل اور پھول سفید ہوتے ہیں۔ جب وہ خشک ہو جاتے ہیں تو ان کی سفیدی اور بڑھ جاتی ہے)۔ اس موقع پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : 'غیروا ہذا بشیء وجنبوا السواد'. '' اس کو یعنی ا ن کے بالوں کی سفیدی کو کسی چیز سے ختم کر دو، البتہ انھیں سیاہ نہ کرنا۔'' (صحیح مسلم، کتاب اللباس، باب استحباب خضاب الشیب، مزید ملاحظہ کیجیے سنن ابن ماجہ ٣٦٣٤، مسند احمد ٣/ ١٦ ٠ ، ابن حجر، الا صابۃ فی تمییز الصحابہ، دار المعرفہ، بیروت ٢/ ١٢٣٢، ابن الاثیر الجزری، اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ، ٣/ ٥٨١) اس ممانعت کو بعض علما نے حرمت اور بعض نے کراہت پر محمول کیا ہے۔ لیکن علامہ ابن حجر فرماتے ہیں کہ آں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد اس صورت کے لیے مخصوص تھا جب بال بہت زیادہ سفید ہونے کی وجہ سے برے لگنے لگتے ہیں۔ اس کا اطلاق ہر ایک پر نہیں ہوتا۔ یہ بات آپؐ نے حضرت ابو قحافہؓ سے اس لیے فرمائی تھی کہ ان کے بال بہت زیادہ سفیدی کی وجہ سے برے لگنے لگے تھے۔ ابن ابی عاصم کہتے ہیں: '' اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں کالے خضاب کا استعمال لوگ عموماً کیا کرتے تھے۔'' ابن شہاب کہتے ہیں: ''ہم کالے خضاب کا استعمال کیا کرتے تھے، جب چہرہ تر و تازہ تھا (اس پر جوانی کے آثار تھے) لیکن جب جھریاں پڑ گئیں اور دانت گر گئے (ہم بوڑھے ہو گئے) تو ہم نے اسے ترک کر دیا۔'' (فتح الباری ١٠/ ٣٥٥) فقہا کا اس بات پر اتفاق ہے کہ بالوں کی سفیدی خضاب کے ذریعے دور کرنے کی اجازت مردوں کی طرح عورتوں کے لیے بھی ہے۔ اسی طرح انھوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ خضاب کے مادہ کو دھو دینے کے بعد بالوں پر اس کا جو رنگ چڑھ جاتا ہے، وہ مانع طہارت نہیں ہے۔ اس لیے خضاب لگانے والے کا وضو اور غسل درست ہو گا۔ هذا ما عندي والله اعلم بالصوابفتاویٰ علمائے حدیثکتاب الصلاۃجلد 1 |