سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(563) اہلحدیث نام کی ابتداء

  • 2231
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 4835

سوال

(563) اہلحدیث نام کی ابتداء
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مولانا محمد حسین بٹالوی نے انگریز سے اہلحدیث نام الاٹ کروایا. اس دعوے میں کتنی صداقت ہے ؟ کیا برِصغیر میں اہلحدیث نام انگریز کے دور سے قبل جماعتِ اہلحدیث کے خاص نہیں تھا۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ دعوی بالکل بے بنیاد اور باطل ہے،اور مسلکی تعصب میں مبتلا لوگوں کا گھڑا ہوا ہے،شیخ زبیر علی زئی اہلحدیث کی ابتداء پر روشنی ڈالتے ہوءے فرماتے ہیں:

جس طرح عربی زبان میں ’’اہل السنۃ ‘‘ کامطلب ہے سنت والے۔اسی طرح ’’ اہل الحدیث ‘‘ کامطلب ہے حدیث والے۔

جس طرح سنت والوں سے مراد صحیح العقیدہ سنی علماء اور ان کے صحیح العقیدہ عوام ہیں، اسی طرح حدیث والوں سے مراد صحیح العقیدہ محدثین کرام اور ان کے صحیح العقیدہ عوام ہیں۔

یاد رہے کہ اہل سنت اور اہل حدیث ایک ہی گروہ کے دو صفاتی نام ہیں۔

صحیح العقیدہ محدثین کرام کی کئی اقسام ہیں۔مثلاً

1۔صحابہ کرامؓ

2۔تابعین عظام رحمہم اللہ اجمعین

3۔تبع تابعین رحمہم اللہ اجمعین

4۔اتباع تبع تابعین رحمہم اللہ اجمعین

5۔حفاظ حدیث رحمہم اللہ اجمعین

6۔راویان حدیث رحمہم اللہ اجمعین

7۔شارحین حدیث وغیرہم رحمہم اللہ اجمعین

صحیح العقیدہ محدثین کے صحیح العقیدہ عوام کی کئی اقسام ہیں۔مثلاً

1۔بہت پڑھے لکھے لوگ

2۔درمیانہ پڑھے لکھے لوگ

3۔تھوڑا پڑھے لکھے لوگ

4۔ان پڑھ عوام

یہ کل (7+4) گروہ اہل حدیث کہلاتے ہیں اور ان کی اہم ترین نشانیاں درج ذیل ہیں:

1۔قرآن وحدیث اور اجماع امت پر عمل کرنا۔

2۔قرآن وحدیث اور اجماع امت کےمقابلے میں کسی کی بات نہ ماننا۔

3۔تقلید نہ کرنا

4۔اللہ تعالیٰ کو سات آسمانوں سے اوپر اپنے عرش پر مستوی ماننا۔کما یلیق بشانہ

5۔ایمان کا مطلب دلی یقین، زبانی قول اور جسمانی عمل ماننا۔

6۔ایمان کی کمی بیشی کا عقیدہ رکھنا۔

7۔کتاب وسنت کو سلف صالحین کےفہم پر سمجھنا اور اس کے مقابلے میں ہر شخص کی بات کو در کردینا۔

8۔تمام صحابہ ، ثقہ وصدوق تابعین، تبع تابعین واتباع تبع تابعین اور تمام ثقہ وصدوق صحیح العقیدہ محدثین سے محبت کرنا ۔ وغیرہ ذلک

امام احمد بن حنبل﷫ نے فرمایا:

’’صاحب الحديث عندنا من يستعمل الحديث‘‘ (الجامع للخطیب:186، وسندہ صحیح)

ہمارے نزدیک صاحب حدیث وہ ہے جو حدیث پر عمل کرے۔

حافظ ابن تیمیہ﷫ نے فرمایا:

’’ونحن لا نعني بأهل الحديث المقتصرين علي سماعه أؤ كتابته أؤ روايته بل نعني بهم : كل من كان أحق بحفظه ومعرفته وفهمه ظاهراً وباطناً. واتباعه باطناً وظاهراً ‘‘(مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ: جلد4،ص 95)

اور اہم اہل حدیث سے مراد صرف سامعین حدیث، کاتبین حدیث یا راویان حدیث ہی نہیں لیتے بلکہ ہم ان سے ہر وہ شخص مراد لیتے ہیں جو اسے کما حقہ یاد رکھتا ہے، ظاہری وباطنی معرفت رکھتا ہے، اور باطنی وظاہری اتباع کرتا ہے۔

حافظ ابن تیمیہ﷫ کے مذکورہ قول سے بھی اہل حدیث (کثرہم اللہ) کی دو قسمیں ثابت ہیں:

1: عاملین بالحدیث محدثین کرام

2: حدیث پر عمل کرنےوالے عوام

حافظ ابن تیمیہ ﷫ نےمزید لکھا ہے:

’’ اور اس سے واضح ہوتا ہے کہ لوگوں میں سے فرقہ ناجیہ ہونے کا سب سے زیادہ مستحق اہل الحدیث والسنۃ ہیں، جن کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےعلاوہ کوئی متبوع (امام) نہیں جس کےلیے وہ تعصب رکھتے ہوں۔(مجموع فتاویٰ، جلد3، ص347)

حافظ ابن کثیر نے بعض سلف صالحین سے نقل کیا ہے کہ

’’هذا اكبر شرف لاصحاب الحديث لان امامهم النبي ‘‘ (تفسیر ابن کثیر جلد4، ص 164، الاسراء:71)

یہ آیت (آیت:71: سورۃ بنی اسرائیل) اصحاب الحدیث کی سب سے بڑی فضیلت ہے کیونکہ ان کے امام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔

سیوطی نے بھی لکھا ہے کہ

’’ ليس لاهل الحديث منقبة اشرف من ذلك لانه لا امام لهم غيره ‘‘ (تدریب الراوی جلد2، ص 126: نوع27)

اہل حدیث کےلیے اس سے زیاہ فضلیت والی کوئی بات نہیں کیونکہ ان کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ دوسرا کوئی امام (متبوع) نہیں۔

امام احمد بن حنبل، امام بخاری اور امام علی بن المدینی وغیرہم رحمہہم اللہ نے اہل الحدیث کو طائفہ منصورہ قراردیا ہے۔ (دیکھیئے معرفۃ علوم الحدیث للحاکم:2 وصححہ ابن حجر العسقلانی فی فتح الباری ج13، ص293 تحت ح 7311، مسالۃ الاحتجاج بالشافعی للخطیب ص47، سنن ترمذی مع عارضۃ الاحوزی ج9، ص74 ح2229)

امام بخاری وامام مسلم کے ثقہ استاذ امام احمد بن سنان الواسطی رحمہ اللہ نے فرمایا:

’’ دنیا میں ایسا کوئی بدعتی نہیں جو اہل حدیث سے بغض نہیں رکھتا ‘‘ (معرفۃ الحدیث للحاکم ص4 وسندہ صحیح)

امام قتیہ بن سعید الثقفی نے فرمایا:

’’ جب تو کسی آدمی کو دیکھے کہ وہ اہل الحدیث سے محبت کرتا ہے تو (سمجھ لے کہ) یہ شخص سنت پر ہے۔(شرف اصحاب الحدیث للخطیب:143، وسندہ صحیح)

حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے لکھا ہے:

’’ امام مسلم، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، ابن حزیمہ، ابویعلیٰ، اور بزار وغیرہم اہل الحدیث کے مذہب پر تھے، وہ علماء میں سے کسی متعین کے مقلد نہیں تھے...(مجموع فتاویٰ جلد20، ص40، تحقیقی مقالات ج1 ص168)

عبارات مذکور سے ثابت ہوا کہ اہل حدیث سے مراد وہ گروہ ہیں:

1۔ صحیح العقیدہ اور تقلید نہ کرنے والےسلف صالحین ومحدثین کرام

2۔ سلف صالحین اور محدثین کرام کے صحیح العقیدہ اور تقلید نہ کرنے والے عوام

راقم الحروف نے اپنے ایک مضمون میں سو سے زیادہ علمائے اسلام کے حوالے پیش کیے ہیں جو تقلید نہیں کرتے تھے اور ان میں سے بعض کے نام درج ذیل ہیں۔

امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل، امام یحیٰ بن سعید القطان، امام عبد اللہ بن المبارک، امام بخاری، امام مسلم، امام ابوداؤد السجستانی، امام ترمذی، امام ابن ماجہ، امام نسائی، امام ابوبکر بن ابی شیبہ، امام ابوداؤد الطیالسی، امام عبد اللہ بن الزبیر الحمیدی، امام ابوعبید القاسم بن سلام، امام سعید بن منصور، امام بقی بن مخلد، امام مسدد، امام ابو یعلیٰ الموصلی، امام ابن خزیمہ، امام ذہلی، امام اسحاق بن راہویہ، محدث بزار، محدث ابن المنذر، امام ابن جریر الطبری اور امام سلطان یعقوب بن یوسف المراکشی المجاہد وغیرہم رحمہم اللہ اجمعین

یہ سب اہل حدیث علماء صدیوں پہلے روئے زمین پر گزر چکے ہیں۔

ابو منصور عبد القاہر بن طاہر البغدادی نے شام، جزیرہ، آذر بائیجان اور باب الابواب وغیرہ کی سرحدوں پر رہنے والوں کے بارے میں فرمایا :

’’ وہ تمام اہل سنت میں سے اہل حدیث کے مذہب پر ہیں۔‘‘ (اصول الدین ص317)

ابو عبد اللہ محمد بن احمد بن البنا ءالبشاری المقدسی نے ملتان کے بارے میں فرمایا :

’’مذاهبهم اكثرهم اصحاب حديث۔(احسن التقاسیم فی معرفۃ الاقالیم ص 363)

ان کے مذاہب: ان میں اکثریت اہل حدیث ہے۔

جبکہ ان کے مقابلے میں:

فرقہ دیوبندیہ کا آغاز 1867ء میں مدرسہ دیوبند کی ابتداء کے ساتھ ہوا اور فرقہ بریلویہ کے بانی احمد رضا خاں بریلوی جو 1865ء میں پیدا ہوئے تھے۔

1۔ فرقہ دیوبندیہ اور فرقہ بریلویہ دونوں کی پیدائش سے بہت پہلے شیخ محمد فاخر بن محمد یحیٰ بن محمد امین العباسی السلفی الٰہ آبادی رحمہ اللہ تقلید نہیں کرتے تھے۔ بلکہ کتاب وسنت کے دلائل پر عمل کرتے اور خود اجتہاد کرتے تھے۔(دیکھیئے نزہۃ الخواطر ج6 ص351 )

2۔ شیخ محمد حیات بن ابراہیم السندھی المدنی رحمہ اللہ تقلید نہیں کرتے تھے اور عمل بالحدیث کے قائل تھے۔

ماسٹر امین اوکاڑوی نے محمد حیات، محمد فاخر الٰہ آبادی اور مبارکپوری تینوں کے بارے میں لکھا ہے :

’’ ان تین غیر مقلدوں کے علاوہ کسی حنفی، شافعی، مالکی اور حنبلی نے اس کو سہو کاتب بھی نہیں کہا ۔‘‘ (تجلیات صفدر ج2، ص243)

3۔ ابو الحسن محمد بن عبدالہادی السندھی الکبیر رحمہ اللہ کے بارے میں امین اوکاڑوی نے لکھا ہے :

’’ حالانکہ یہ ابوالحسن سندھی غیر مقلد تھا...‘‘ (تجلیات صفدر ج6 ص44)

یہ سب حوالے ہندوستان پر انگریزوں کے قبضے سےبہت پہلے کے ہیں لہذا آپ نے جن لوگوں سے یہ سنا ہے کہ ’’ اہل حدیث حضرات انگریزوں کےدور میں شروع ہوئے ہیں پہلے ان لوگوں کا نام ونشان نہیں تھا ‘‘ بالکل جھوٹ اور افتراء ہے۔

رشید احمد لدھیانوی دیوبندی نے لکھا ہے :

’’ تقریباً دوسری تیسری صدی ہجری میں اہل حق میں فروعی اور جزئی مسائل کےحل کرنےمیں اختلاف انظار کے پیش نظر پانچ کاتب فکر قائم ہوگئے یعنی مذاہب اربعہ اور اہل حدیث۔ اس زمانے سے لیکر آج تک انہی پانچ طریقوں میں حق منحصر سمجھا جاتا رہا۔‘‘ (احسن الفتاویٰ ج1 ص316)

اس عبارت میں لدھیانوی صاحب نے اہل حدیث کا قدیم ہونا ، انگریزوں کے دور سے بہت پہلے ہونا اوراہل حق ہونا تسلیم کیا ہے۔

حاجی امداد اللہ مکی کے ’’ خلیفۂ مجاز ‘‘ محمد انوار اللہ فاروقی ’’ فضلیت جنگ ‘‘ نےلکھا ہے :

’’ حالانکہ اہل حدیث کل صحابہ تھے۔‘‘ (حقیقۃ الفقہ حصہ دوم ص 228، مطبوعہ ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ کراچی)

محمد ادریس کاندھلوی دیوبندی نے لکھا ہے :

’’ اہل حدیث تو تمام صحابہ تھے۔‘‘ (اجتہاد اور تقلید کی بیمثال تحقیق ص48)

میری طرف سے تمام آل دیوبند اور تمام آل بریلی سےسوال ہے کہ انیسویں اور بیسیویں صدی عیسوی (یعنی ہندوستان پر انگریزی قبضے کے دور) سے پہلے کیا دیوبندی مسلک یا بریلوی مسلک کا آدمی موجود تھا ؟ اگر تھا تو صحیح اور صریح صرف ایک حوالہ پیش کریں اور اگر نہیں تھا تو ثابت ہوگیا کہ بریلوی مذہب اور دیوبندی مذہب دونوں ہندوستان پر انگریزی قبضے کے بعد کی پیداوار ہیں۔ وما علینا الا البلاغ المبین

هذا ما عندي والله اعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

کتاب الصلاۃجلد 1

تبصرے