السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کسی دوسرے شہر سے فون کے ذریعے خبر یا شہادت لیکر چاند کا اعلان کرنے کا کیا حکم ہے۔؟ الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤالوعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته! الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!موبائل کے ذریعے حاصل کردہ خبر پر اعتماد کرنا جائز ہے ،کیونکہ ٹیلی فون بھی تحریر ہی کے حکم میں ہے۔ جس طرح دو تحریروں میں مماثلت کا اندیشہ ہو سکتا ہے، بالکل اسی طرح بعض اوقات انسان دو آوازوں کا فرق نہیں کر پاتا۔ مگر جس طرح تحریر کے صحیح ہونے کا غالب گمان بعض دوسرے قرائن وشواہد اور خارجی اسباب سے ہو سکتا ہے، ویسے ہی ٹیلی فون کا بھی ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ نے کسی شخص کو پہلے ہی خبر دینے کے لیے مقرر کیا ہو پھر وہ وقت مقررہ پر آپ کو خبر دے دے یا آپ خود بذریعہ فون اس سے رابطہ قائم کر لیں تو آپ کو پتا چل جائے گا کیونکہ اس کی آواز سے پہلے ہی آشنا ہوں گے تو بڑی حد تک آپ کو اس کا غالب گمان حاصل ہو جائے گا کہ یہ اسی شخص کی آواز ہے جس کو مقرر کیا گیا ہے۔ چنانچہ بڑے بڑے دنیوی معاملات میں ہم ایسے شواہد وقرائن کا سہارا لیتے ہیں۔ اس لیے ان مواقع پر جن کا تعلق خبر اور اطلاع سے ہے ٹیلی فون کا اعتبارکیا گیا ہے لیکن جہاں شہادت اور گواہی مطلوب ہو وہاں محض فون کافی نہیں روبرو حاضری ضروری ہے۔ ایسے مواقع پر اس تدبیر پر عمل کرنا چاہیے کہ دارالقضاء یا رؤیت ہلال کی گواہی لے لیں اور پھر فون کے ذریعے مرکز کو اس کی اطلاع دے دی جائے۔ موبائل کے ذریعے خبر واطلاع دی جاتی ہے گواہی نہیں، اس کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی نے ضلعی وتحصیلی سطح پر رؤیت ہلال کمیٹی بنائی ہوتی ہے۔ اگر کوئی شخص چاند دیکھنے کا دعوی کرتا ہے تو وہ گواہوں کی موجودگی میں تحصیلی یا ضلعی سطح کی رؤیت ہلال کمیٹی کے سامنے گواہی دے گا کہ اس نے چاند ان گواہوں کی موجودگی میں دیکھا ہے اور وہ قابل اعتبار شخص ہونا چاہیے۔ کمیٹی اس کی تحقیق کرے گی پھر یہ چھوٹی چھوٹی کمیٹیاں مرکزی کمیٹی کو شہادت کی اطلاع بذریعہ فون دیں گی نہ کہ گواہی۔ لہذا بذریعہ فون گواہی اور شہادت کی اطلاع دینا جائز ہے اور یہ ایسے ہی ہے جیسے بذریعہ ٹی وی اور ریڈیو خبر اور اطلاع دی جاتی ہے۔ تو پتہ چلا کہ بذریعہ فون گواہی کی خبر دی جاتی ہے نہ کہ گواہی اور خبر دینا جائز ہے۔ هذا ما عندي والله اعلم بالصوابفتاویٰ علمائے حدیثکتاب الصلاۃجلد 1 |