السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک عورت نے نذر مانی کہ اگر اس کا حمل محفوظ رہا اور بچہ صحیح سالم پیدا ہوا تو وہ ایک سال کے روزے رکھے گی، اور واقعتا اس کا حمل پوری مدت تک سالم رہا اور اس نے صحیح سالم بچے کو جنم دیا، پھر اسے معلوم ہوا کہ وہ روزے رکھنے کی طاقت نہیں رکھتی۔ اب اسے کیا کرنا چاہیے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ بات تو شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ نذر ایک عبادت ہے اور اللہ رب العزت نے نذر پوری کرنے والوں کی مدح فرمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿ يُوفُونَ بِالنَّذْرِ وَيَخَافُونَ يَوْمًا كَانَ شَرُّهُ مُسْتَطِيرًا ﴾ (الانسان: 76؍7)
’’ یہ لوگ نذر کو پورا کرتے ہیں اور اس دن سے ڈرتے رہتے ہیں جس کی سختی عام ہو گی ۔‘‘ (یعنی جس کی برائی چاروں طرف پھیلنے والی ہو گی)۔
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
(مَنْ نَذَرَ أَنْ يُطِيعَ اللَّهَ فَلْيُطِعْهُ، وَمَنْ نَذَرَ أَنْ يَعْصِيَ اللَّهَ، فَلا يَعْصِهِ) (رواہ البخاری، کتاب الایمان باب 28 و احمد 6؍31 و ابوداؤد، کتاب الایمان، باب 19)
’’ جس شخص نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی نذر مانی تو وہ اس کی اطاعت کرے اور جس نے اس کی نافرمانی کی نذر مانی وہ اس کی نافرمانی نہ کرے ۔‘‘
ایک شخص نے بوانہ نامی جگہ پر اونٹ ذبح کرنے کی نذر مانی، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: کیا وہاں جاہلیت کے بتوں میں سے کوئی ایسا بت ہے جس کی پرستش کی جاتی ہو؟ کہا گیا: ’’ نہیں‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: ’’ کیا وہاں جاہلیت کا کوئی میلہ لگتا ہے؟‘‘ کہا گیا :’’ نہیں ‘‘ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(أوْفِ بِنَذْرِكَ فَإنّهُ لاَ وَفَاءَ لِنِذْرٍ في مَعْصِيَةِ الله وَلاَ فِيمَا لاَ يَمْلِكُ ابنُ آدَمَ) (ابوداؤد، کتاب الایمان والنذور، باب 23)
’’ اپنی نذر پوری کر، اللہ کی نافرمانی پر مشتمل نذر قطعا پوری نہیں کرنی چاہیے اور نہ اس چیز کی نذر کہ جس کا انسان مالک ہی نہیں ۔‘‘
سائلہ نے یہ بتایا ہے کہ اس نے سال بھر کے روزے رکھنے کی نذر مانی تھی، جبکہ ایک سال کے مسلسل روزے رکھنا زندگی بھر کے روزے رکھنے کے مترادف ہے، جو کہ مکروہ ہے۔ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
(مَنْ صَامَ الدَّهْرَ فَلَا صَامَ وَلَا أَفْطَرَ) (رواہ احمد 4؍25)
’’ جس نے زندگی بھر روزہ رکھا تو اس نے روزہ رکھا نہ افطار کیا ۔‘‘
اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ مکروہ عبادت اللہ تعالیٰ کی معصیت ہے، لہذا ایسی نذر پوری نہیں کرنی چاہیے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
(لو نذر عبادة مكروهة مثل قيام الليل كله وصيام النهار كله لم يجب الوفاء بهذا النذر) (فتاویٰ ابن تیمیہ)
’’ اگر کسی نے مکروہ عبادت کی نذر مانی مثلا یہ کہ وہ ہمیشہ رات بھر قیام کرے گا اور ہمیشہ دن کا روزہ رکھے گا، تو ایسی نذر کا پورا کرنا واجب نہیں ۔‘‘
اس اعتبار سے سائلہ پر قسم کا کفارہ واجب ہے، جس کی مقدار دس مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے۔ ہر مسکین کو شہر کی غالب خوراک مثلا کھجور، چاول وغیرہ سے نصف صاع (تقریبا ڈیڑھ کلو) دینا ہو گا۔ اگر اس کی طاقت نہ ہو تو مسلسل تین روزے رکھنے ہوں گے۔ وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم ۔۔۔دارالافتاء کمیٹی۔۔۔
ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب