السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میرے بچے ہیں میں اکثر اوقات انہیں قسم دیتی رہتی ہوں کہ وہ یوں نہیں کریں گے مگر وہ میرا حکم تسلیم نہیں کرتے، کیا اس حالت میں مجھ پر کفارہ واجب ہو گا؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جب آپ اپنی اولاد یا کسی اور کو ارادتا و قصدا کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کی قسم دیں اور وہ اس پر عمل نہ کریں تو آپ پر قسم کا کفارہ واجب ہو گا، کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّـهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَـٰكِن يُؤَاخِذُكُم بِمَا عَقَّدتُّمُ الْأَيْمَانَ ۖ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ ۖ فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ ۚ ذَٰلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمَانِكُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ ۚ وَاحْفَظُوا أَيْمَانَكُمْ﴾ (المائدہ 5؍89)
’’ اللہ تم سے تمہاری لغو قسموں پر مؤاخذہ نہیں کرے گا، لیکن جن قسموں کو تم مضبوط کر چکے ہو ان پر تم سے مؤاخذہ کرے گا۔ سو اس کا کفارہ دس مسکینوں کو اوسط درجے کا کھانا کھلانا ہے جو تم اپنے گھر والوں کو کھلایا کرتے ہو، یا انہیں کپڑا دینا یا غلام آزاد کرنا ہے، لیکن جو شخص اس کی طاقت نہ رکھتا ہو تو اس پر تین دن کے روزے ہیں، یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جبکہ تم قسم اٹھاؤ اور اپنی قسموں کی حفاظت کرو ۔‘‘
اسی طرح اگر آپ کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں قسم اٹھائیں پھر دیکھیں کہ مصلحت اس میں نہیں بلکہ دوسرے کام میں ہے تو ایسی قسم کے توڑ دینے میں کوئی حرج نہیں، ہاں اس کا کفارہ ادا کرنا واجب ہو گا کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
(إِذَا حَلَفْتَ عَلَى يَمِينٍ، فَرَأَيْتَ غَيْرَهَا خَيْرًا مِنْهَا، فَكَفِّرْ عَنْ يَمِينِكَ وَائْتِ الَّذِي هُوَ خَيْرٌ) (متفق علیہ)
’’ جب تو قسم اٹھائے پھر اس کام کے مقابلے میں دوسرے کام کو بہتر سمجھے تو قسم کا کفارہ ادا کر کے بہتر کام کر لے ۔‘‘ ۔۔۔شیخ ابن باز۔۔۔
ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب