السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جب مندرجہ ذیل اسباب کی بناء پر خاوند کے ساتھ زندگی بسر کرنا محال ہو جائے تو مطالبہ طلاق کے بارے میں شرعی حکم کیا ہے! میرا خاوند جاہل ہے اور میرے حقوق سے آگاہ نہیں وہ مجھے اور میرے والدین کو لعن طعن کرتا ہے، مجھے یہودی، عیسائی اور رافضی جیسے القاب دیتا ہے، لیکن میں بچوں کی خاطر اس کے مذموم اخلاق پر صبر کرتی ہوں، مگر جب میں جوڑوں کی تکلیف میں مبتلا ہوئی تو بے بسی کے عالم میں میرے ہاتھ سے صبر کا دامن چھوٹ گیا۔ مجھے اس سے اتنی شدید نفرت ہو گئی کہ اس سے بات کرنا بھی گوارہ نہیں رہا۔ میں نے ان حالات میں طلاق کا مطالبہ کیا تو اس نے رد کر دیا۔ میں گذشتہ چھ سال سے اپنے بچوں کے ساتھ اس کے گھر میں ایک مطلقہ اور اجنبی کی طرح پڑی ہوں لیکن وہ میرا طلاق کا مطالبہ رد کرتا آ رہا ہے۔ براہ کرم جواب با صواب سے نوازیں۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اگر خاوند کا رویہ ایسا ہی ہے جیسا آپ نے بتایا ہے تو ایسے حالات میں اس سے طلاق طلب کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اس طرح اس سے جان چھڑانے کے لیے خلع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ اس کی بدکلامیوں، زیادتیوں اور سوء معاشرت کی بنا پر اس سے طلاق لینے کے لیے اسے کچھ مال دے دیں اور اس سے جان چھڑا لیں۔ اگر آپ اپنے بچوں کی خاطر اور اپنے اور ان کے اخراجات کی خاطر اسے برداشت کر سکیں اور ساتھ ہی ساتھ اچھے انداز سے اسے سمجھاتی رہیں اور اس کے لیے ہدایت کی دعا کرتی رہیں تو ہم آپ کے لیے اجر و ثواب اور اچھے انجام کی امید کرتے ہیں۔ ہم بھی اس کے لیے ہدایت اور استقامت کے لیے اللہ رب العزت سے دعا کرتے ہیں۔ یہ سب کچھ اس صورت میں ہے کہ اگر وہ نماز پڑھتا ہو اور اہانت دین کا مرتکب نہ ہوتا ہو اور اگر وہ تارک نماز ہے یا دین کی اہانت کا مرتکب ہوتا ہے تو وہ کافر ہے اور آپ کا اس کے ساتھ رہنا یا اسے اپنے اوپر بااختیار بنا دینا ناجائز ہے۔ کیونکہ علماء کا اجماع ہے کہ دین اسلام کو گالیاں دینا اور اس کا استہزاء کرنا کفر، گمراہی اور ارتداد عن الاسلام ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿قُلْ أَبِاللَّـهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ ﴿٦٥﴾ لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُم بَعْدَ إِيمَانِكُمْ﴾ (التوبۃ 9؍65-66)
’’ آپ فرما دیجئے! اچھا تم استہزاء کر رہے تھے اللہ، اس کی آیتوں اور اس کے رسول کے ساتھ؟ اب بہانے نہ بناؤ تم اظہارِ ایمان کے بعد کافر ہو چکے ہو ۔‘‘
اسی طرح اہل علم کے صحیح قول کی رو سے ترک نماز کفر اکبر ہے، اگرچہ ایسا شخص نماز کے وجوب کا انکار نہ بھی کرے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(بَيْنَ الرَّجُلِ وَبَيْنَ الْكُفْرِ وَالشِّرْكِ تَرَكُ الصَّلَاةِ) (صحیح مسلم، کتاب الایمان باب 35)
’’ مومن اور کافر کے درمیان نماز کا چھوڑنا ہی حد فاصل ہے ۔‘‘
اور دوسری حدیث میں ہے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(الْعَهْدُ الَّذِي بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمْ الصَّلَاةُ، فَمَنْ تَرَكَهَا فَقَدْ كَفَرَ) (سنن ترمذی رقم 2623، سنن نسائی، سنن ابن ماجه رقم 1079، مسند احمد 5؍346، مستدرك الحاکم 1؍7 سنن الدارمی، السنن الکبری للبیہقی 3؍366، مصنف ابن ابی شیبه 11؍34 و صحیح ابن حبان ، رقم 1454)
’’ ہمارے اور ان (کفار) کے مابین نماز ہی تو حد فاصل ہے، جس نے نماز کو چھوڑا اس نے یقینا کفر کیا ۔‘‘ علاوہ ازیں کتاب و سنت کے بہت سارے دلائل اس موضوع پر موجود ہیں۔ والله المستعان ۔۔۔شیخ ابن باز۔۔۔
ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب