السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
عورت کے لیے مانع حمل گولیاں استعمال کرنا کب جائز اور کب حرام ہیں؟ کیا تحدید نسل (خاندانی منصوبہ بندی) کے بارے میں کوئی صریح نص یا فقہی رائے موجود ہے؟ اور کیا بغیر کسی (معقول) سبب کے کوئی مسلمان خاوند دوران جماع بیوی سے عزل کر سکتا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جہاں تک ہو سکے مسلمانوں کو اپنی نسل بڑھانی چاہیے، اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جانب ہماری توجہ مبذول کرائی ہے۔ آپ کا فرمان ہے:
(تَزَوَّجُوا الْوَلُودَ الْوَدُودَ فَإِنِّي مُكَاثِرٌ بِكُمْ) (مسند احمد و صحیح ابن حبان)
’’ محبت کرنے والی، زیادہ بچے جننے والی عورتوں سے شادی کرو۔ میں تمہاری کثرت کی وجہ سے فخر کروں گا ۔‘‘
نیز اس لیے بھی کہ کثرت نسل کثرت امت ہے اور امت کی کثرت اس کی ایک قوت ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر احسان جتلاتے ہوئے فرمایا:
﴿وَجَعَلْنَاكُمْ أَكْثَرَ نَفِيرًا﴾ (سورة الاسراء17؍6)
’’ اور ہم نے تمہیں بہت بڑی جماعت بنا دیا ۔‘‘
حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم سے (اللہ تعالیٰ کا احسان جتلاتے ہوئے) فرمایا تھا:
﴿ وَاذْكُرُوا إِذْ كُنتُمْ قَلِيلًا فَكَثَّرَكُمْ ﴾ (الاعراف 7؍86)
’’ اور وہ وقت یاد کرو جب تم تھوڑے تھے پس اس نے تمہیں زیادہ کر دیا ۔‘‘
اس امر سے کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا کہ امت کی کثرت اس کی طاقت اور عزت کا سبب ہے، بعض بدگمان اور کج فہم لوگوں کے اس دعویٰ کے برعکس کہ کثرت امت اس کے فقر و فاقہ اور بھوک و افلاس کا سبب ہے۔ جب امت زیادہ تعداد میں ہو گی اور اس کا ذات باری تعالیٰ پر ایمان ہو گا اور اس کے اس وعدہ پر یقین ہو گا:
﴿ وَمَا مِن دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّـهِ رِزْقُهَا ﴾ (ھود 11؍6)
’’ اور زمین پر چلنے پھرنے والے جتنے جاندار ہیں ان کی روزیاں اللہ تعالیٰ کے ذمے ہیں ۔‘‘
تو اللہ تعالیٰ اس کا معاملہ آسان فرما دے گا اور اپنے فضل و کرم سے اسے غیروں کا دست نگر بننے سے بے نیاز فرما دے گا۔ اس تفصیل سے مذکورہ بالا سوال کا جواب واضح ہو گیا۔ پس دو شرطوں کے بغیر مانع حمل گولیوں کا استعمال کسی عورت کے لیے جائز نہیں:
پہلی شرط یہ ہے کہ عورت کو اس کی ضرورت ہو، مثلا وہ مریضہ ہے اور ہر سال حمل کی طاقت نہیں رکھتی۔ وہ جسمانی طور پر کمزور ہو یا ایسی کوئی اور رکاوٹیں ہیں جو ہر سال حمل کی صورت میں اس کے لیے باعث نقصان ہیں۔
دوسری شرط یہ ہے کہ اس بات کی اجازت اس کا خاوند بھی دے کیونکہ بچے اور ان کی پیدائش کا حق خاوند کو حاصل ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مانع حمل گولیوں کے استعمال کے لیے ڈاکٹر سے مشورہ کرنا ضروری ہے کہ آیا ان کا استعمال نقصان دہ تو نہیں۔
مذکورہ بالا دونوں شرطیں پوری ہونے پر عورت مانع حمل گولیوں کا استعمال کر سکتی ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ وہ ان گولیوں کا استعمال ہمیشہ کے لیے ، عمل تولید کو روکنے کی خاطر نہ کرے، کیوں کہ اس میں قطع نسل کا خطرہ موجود ہے۔ جہاں تک سوال کے دوسرے حصے کا تعلق ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ فی الواقع خاندانی منصوبہ بندی ناممکن ہے اس لیے کہ حمل یا عدم حمل اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے۔
پھر جب کوئی انسان بچوں کے لیے کوئی عددی حد مقرر کر لے تو اس تعداد کا ایک ہی سال میں کسی وباء یا حادثے کی بناء پر خاتمہ بھی ممکن ہے، اس صورت میں تو آدمی اولاد اور نسل کے بغیر رہ جائے گا۔ شریعت اسلامیہ میں خاندانی منصوبہ بندی کا کوئی حکم موجود نہیں ہے ہاں ضرورت کے پیش نظر وقتی طور پر حمل کو روکنا جائز ہے، جیسا کہ ہم نے ابھی ذکر کیا ہے۔
رہا معاملہ دوران جماع بلا سبب عزل کرنے کا تو علماء کے صحیح قول کی رو سے اس میں کوئی حرج نہیں۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
(كُنَّا نَعْزِلُ وَالْقُرْآنُ يُنَزَّلُ) (صحیح البخاری، کتاب النکاح باب 97 و صحیح مسلم، کتاب الطلاق باب 26)
’’ ہم نزول قرآن کے زمانے میں عزل کیا کرتے تھے ۔‘‘ (یعنی عہد نبوی میں ہم یہ کام کرتے تھے)۔
اگر یہ فعل حرام ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس سے منع فرما دیتے لیکن علماء کا کہنا ہے کہ خاوند آزاد عورت کی مرضی کے بغیر اس سے عزل نہیں کر سکتا کیونکہ بچوں میں عورت کا بھی حق ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ عزل کرنے سے اس کے لطف اندوزی والے حق میں کمی آ جاتی ہے جو کہ انزال کے بعد ہی مکمل ہوتی ہے۔ اس بنا پر اس سے اجازت نہ لینا، اس کے لطف اندوزی کے حق کو نقصان پہنچانا ہے اس سے بچوں کا نقصان بھی ہو سکتا ہے، لہذا ہم نے اس کی اجازت کی شرط لگائی ہے۔ شیخ ابن عثیمین
ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب