سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(178) سادہ شادی! نہایت برکت

  • 22244
  • تاریخ اشاعت : 2024-11-01
  • مشاہدات : 681

سوال

(178) سادہ شادی! نہایت برکت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 بھاری بھر کم حق مہر اور شادی بیاہ کی تقریبات میں فضول خرچی سے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟ خاص طور پر ہنی مون کے متعلق کہ جس پر بھاری رقوم خرچ کی جاتی ہیں، کیا شریعت اسے برقرار رکھتی ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حق مہر اور شادی بیاہ کی تقریبات میں اسراف و تبذیر خلاف شرع ہے۔ اس  لیے  کہ کم خرچ شادی انتہائی بابرکت ہوتی ہے، اور خرچ جتنا کم ہو گا برکت اتنی زیادہ ہو گی ایسے معاملات کا تعلق عام طور پر عورتوں سے ہوتا ہے کیونکہ وہی مردوں کو زیادہ اور بھاری مہر پر اکساتی ہیں، اگر کہیں سے کم مہر کی پیش کش ہو تو اسے یہ کہہ کر ٹھکرا دیتی ہیں کہ ہماری بیٹی کے  لیے  مہر، تو اتنا اور اتنا ہونا چاہیے۔ اسی طرح تقریبات پر اٹھنے والے کثیر اخراجات ہیں کہ شریعت ان سے بھی روکتی ہے یہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے تحت آتے ہیں:

﴿وَلَا تُسْرِفُوا ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ ﴾ (الانعام 6؍141)

’’ فضول خرچی مت کرو یقینا اللہ تعالیٰ فضول خرچی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔‘‘

اور ایسی فضول خرچیوں پر بھی عام طور پر عورتیں ہی مردوں کو اکساتی ہیں اور کہتی ہیں کہ دیکھو جی! فلاں کے پروگرام میں یہ کچھ ہوا، فلاں نے یہ کیا۔ ایسے معاملات میں یہ امر ملحوظ خاطر رکھنا چاہے کہ وہ شرعی انداز میں ہو، حدود سے تجاوز کرتے ہوئے فضول خرچی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ فضول خرچی منع ہے۔

﴿وَلَا تُسْرِفُوا ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ ﴾ (الانعام 6؍141)

’’ فضول خرچی مت کرو یقینا اللہ تعالیٰ فضول خرچی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔‘‘

باقی رہا ہنی مون کا معاملہ، تو یہ انتہائی بدترین اور قابل نفرت اور برا عمل ہے۔ یہ محض غیر مسلموں  کی تقلید اور اموال کثیرہ کا ضیاع ہے، جبکہ دینی امور کا ضیاع اس کے علاوہ ہے، خاص طور پر اس وقت جب اسے غیر اسلامی ممالک میں منایا جائے، اس صورت میں نوبیاہتا جوڑے ایسی تباہ کن عادات و تقالید لے کر لوٹتے ہیں جو خود ان کے  لیے  اور مسلم معاشرے کے  لیے  باعث خوف ہیں، ہاں! اگر کوئی انسان اپنی بیوی کے ساتھ مسجد نبوی کی زیارت یا عمرے کی ادائیگی کے  لیے  سفر کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں (بلکہ بہت بہتر ہے)۔ ان شاءاللہ ۔۔۔شیخ ابن عثیمین۔۔۔

ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ برائے خواتین

نكاح،صفحہ:191

محدث فتویٰ

تبصرے