السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک شخص حکومتی نمائندے کے طور پر ملک سے باہر جانا چاہتا ہے، وہ شرم گاہ کے تحفظ (بے حیائی سے بچنے) کی خاطر بیرون ملک معینہ مدت تک شادی کرنا چاہتا ہے، اس عرصے کے بعد وہ اسے طلاق دے دے گا، لیکن وہ عورت کو اس کے متعلق آگاہ نہیں کرتا کہ وہ اسے طلاق دے گا۔ اس کے اس فعل کا کیا حکم ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
طلاق کی نیت سے نکاح کرنا دو حالتوں سے خالی نہیں، یا تو وہ نکاح کے وقت شرط لگائے کہ وہ لڑکی سے ایک ماہ، ایک سال یا تعلیم مکمل ہونے تک شادی کرے گا۔ یہ نکاح متعہ ہے اور حرام ہے۔ یا پھر بوقت نکاح اس بات کو مخفی رکھے اور بطور نکاح کی شرط کے اس کا تذکرہ نہ کرے تو حنابلہ کے مشہور مذہب کی رو سے یہ بھی حرام ہے اور نکاح فاسد ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’مخفی بھی مشروط کی طرح ہے ۔‘‘ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
(إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ، وَإِنَّمَا لِامْرِئٍ مَا نَوَى) (البخاری حدیث 1)
’’ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے، ہر آدمی کے لیے وہی کچھ ہے جو اس نے نیت کی ۔‘‘
نیز اس لیے بھی کہ اگر کوئی شخص مطلقہ ثلاثہ سے اس بنا پر نکاح کرے کہ وہ اس عورت کو پہلے خاوند کے لیے حلال کرنے کی خاطر طلاق دے دے گا (یعنی حلالہ کرے) تو یہ نکاح فاسد ہو گا اگرچہ یہ نکاح بغیر کسی شرط کے تھا، کیوں کہ نیت والا مشروط کی طرح ہے۔ جس طرح حلالہ کی نیت نکاح کو فسخ کر دیتی ہے اس طرح متعہ کی نیت بھی نکاح کو فسخ کر دیتی ہے یہ حنابلہ کا قول ہے۔
اس مسئلے میں اہل علم کا دوسرا قول یہ ہے کہ طلاق کی نیت سے نکاح کرنا جائز ہے، مثلا ان اجنبی مسافروں کے لیے جو حصول تعلیم وغیرہ کے لیے باہر جاتے ہیں۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ ایسا نکاح اس لیے جائز ہے کہ اس نے ایسی کوئی شرط عائد نہیں کی۔ اس نکاح اور نکاح متعہ میں فرق یہ ہے کہ نکاح متعہ کی صورت میں معینہ عرصہ پورا ہونے پر فریقین میں از خود جدائی ہو جاتی ہے، خاوند چاہے یا نہ چاہے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، جبکہ ایسے نکاح میں ممکن ہے کہ خاوند بیوی میں دلچسپی کا اظہار کرے تو وہ اس کے ساتھ رہ سکتی ہے۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے دو قولوں میں سے ایک قول یہی ہے۔
میرے نزدیک ایسا نکاح صحیح ہے، متعہ نہیں، اس لیے کہ اس پر متعہ کی تعریف صادق نہیں آتی لیکن یہ نکاح اس اعتبار سے حرام ہے کہ اس میں بیوی اور اس کے خاندان کو دھوکہ دیا جاتا ہے، جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دھوکہ دہی کو حرام قرار دیا ہے۔اگر اس عورت یا اس کے خاندان کو اس بات کا علم ہو جائے کہہ یہ شخص بس ایک مدت تک اس سے شادی کرنا چاہتا ہے تو وہ اس کے لیے کبھی بھی آمادہ نہ ہوں گے۔ بعینہ یہ شخص بھی یہ نہیں چاہے گا کہ کوئی شخص اس کی بیٹی سے شادی کرے اور پھر مطلب پورا ہونے کے بعد اسے طلاق دے دے۔ آخر یہ شخص دوسروں سے وہ سلوک کیوں کرنا چاہتا ہے جسے وہ خود اپنے لیے پسند نہیں کرتا؟ یہ رویہ ایمان کے تقاضوں کے منافی ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
(لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى يُحِبَّ لِأَخِيهِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ) (البخاری، حدیث 13)
’’ تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے بھائی کے لیے وہ کچھ پسند نہ کرے جو کچھ وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے ۔‘‘
میں نے سنا ہے کہ بعض لوگ اس کام کو ایسے مقصد کے لیے استعمال کرتے ہیں جس کا کوئی بھی قائل نہیں وہ یہ کہ بعض لوگ صرف شادی رچانے کے لیے ہی بیرون ملک جاتے ہیں، پھر جس عورت کے ساتھ انہوں نے ایک معینہ مدت تک شادی کی ہوتی ہے اس عرصے تک اس کے ساتھ رہتے ہیں اور پھر واپس لوٹ آتے ہیں۔ یہ رویہ بھی سخت ممنوع ہے، چونکہ اس میں سنگین قسم کا دھوکہ اور فراڈ ہے، لہذا ایسے غیر پسندیدہ اعمال کا سدباب کرنا ضروری ہے، خاص طور پر ایسے حالات میں کہ لوگ جاہل ہیں اور اکثر لوگوں کو ان کی نفسانی خواہشات حدود اللہ کو پامال کرنے سے نہیں روکتیں۔ ۔۔۔شیخ ابن عثیمین۔۔۔
ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب