سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(176) باپ کا بیٹی کو نکاح پر مجبور کرنا حرام ہے

  • 22242
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 1029

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

باپ کی طرف سے میری ایک بہن ہے، جس کی عمر اکیس برس ہے۔ میرے باپ نے اس کا نکاح اس کی مرضی اور رائے  لیے  بغیر ایک شخص سے کر دیا۔ نکاح کے گواہوں نے اس امر کی جھوٹی گواہی دی کہ لڑکی اس نکاح پر راضی ہے اور شادی کی دستاویزات پر بھی لڑکی کی جگہ اس کی ماں نے دستخط کئے، اس طرح نکاح کی کاروائی تو مکمل ہوئی جبکہ لڑکی ابھی تک اسے رد کر رہی ہے۔ اس نکاح اور جھوٹے گواہوں کے بارے میں کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آپ کی بہن اگر کنواری تھی اور باپ نے اس شخص سے اس کا نکاح جبرا کیا ہے تو بعض اہل علم اس نکاح کی صحت کے قائل ہیں۔ ان کی رائے میں اگر مرد عورت کا (تمام صفات میں) مماثل ہو تو اگرچہ لڑکی ایسے شخص کو ناپسند کرتی ہو تب بھی باپ کو جبرا اس کا نکاح کرانے کا حق حاصل ہے۔ لیکن اس بارے میں راجح قول یہ ہے کہ باپ یا کسی بھی اور شخص کو اس بات کا حق حاصل نہیں ہے کہ وہ لڑکی کا نکاح اس کے غیر پسندیدہ شخص سے کر سکیں چاہے وہ اس کا کفو ہی کیوں نہ ہو۔ یہ اس  لیے  کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(لَا تُنْكَحُ الْبِكْرُ حَتَّى تُسْتَأْذَنَ)

’’ کنواری عورت کا نکاح اس کی مرضی کے بغیر نہ کیا جائے ۔‘‘

یہ حکم عام ہے اس بارے میں اولیاء میں سے کسی ایک کو مستثنیٰ نہیں کیا جا سکتا، بلکہ صحیح مسلم میں تو یوں ہے:

(البكر يستأذنها أبوها) (صحیح البخاری، کتاب النکاح باب 41 و مسلم، کتاب النکاح باب 64)

’’ کنواری عورت سے اس کا باپ اجازت حاصل کرے ۔‘‘

اس حدیث میں کنواری عورت اور باپ کا ذکر بطور نص موجود ہے۔ نزاعی مسئلے میں یہ حدیث نص ہے، لہذا اس پر عمل کرنا واجب ہے۔

اس بنا پر آدمی کی طرف سے اپنی بیٹی کا نکاح کسی ایسے شخص سے کر دینا جسے وہ پسند نہیں کرتی حرام ہے۔ اور حرام نہ تو صحیح ہوتا ہے اور نہ ہی نافذ، کیوں کہ ایسے حکم کی صحت اور نفاذ شارح علیہ السلام کی نہی کے منافی ہے کیونکہ اس سے شارح علیہ السلام کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ امت اس فعل کی مرتکب نہ ہو۔ ہم اس حکم کو صحیح قرار دیں گے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم خود اس کے مرتکب ہو رہے ہیں اور اسے ان احکام کی جگہ دے رہیں جنہیں شارح علیہ السلام نے مباح قرار دیا ہے جبکہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ لہذا راجح قول کی رو سے آپ کے باپ کی طرف سے لڑکی کا نکاح ایسے مرد سے کر دینا جسے وہ پسند نہیں کرتی فاسد ہے اور اس معاملے میں عدالت کی مداخلت ضروری ہے۔ جہاں تک جھوٹے گواہوں کا تعلق ہے، تو وہ کبیرہ گناہ کے مرتکب ہوئے ہیں۔ جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(أَلا أخْبركُم بأكبر الْكَبَائِر إِلَّا شِرَاك بِاللَّهِ وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ وَكَانَ مُتَّكِئًا فَجَلَسَ فَقَالَ وَشَهَادَةُ الزُّورِ ثَلاثًا أَوْ قَالَ قَوْلُ الزُّورِ فَمَا زَالَ يُكَرِّرُهَا حَتَّى قُلْنَا لَيْتَهُ سَكَتَ) (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

’’ کیا میں تمہیں کبیرہ گناہوں کے متعلق نہ بتاؤں؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا ذکر فرمایا: اس دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم ٹیک لگائے بیٹھے رہے پھر (آپ اٹھ کر یعنی سیدھے ہو کر) بیٹھ گئے اور فرمانے لگے: خبردار جھوٹی بات سے بچو، خبردار جھوٹی بات سے بچو، خبردار جھوٹی گواہی سے بچو۔ راوی کہتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کو دھراتے رہے یہاں کہ لوگوں نے کہا: کاش آپ مزید نہ دھرائیں ۔‘‘

ان جھوٹے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کرنی چاہیے، حق بات کا اظہار کرنا چاہیے اور شرعی عدالت کے سامنے برملا اعتراف کرنا چاہیے کہ انہوں نے جھوٹی گواہی دی تھی اور اب وہ اس سے رجوع کر رہے ہیں۔ اسی طرح جس ماں نے بیٹی کی طرف سے جھوٹے دستخط کئے تھے وہ اپنے اس فعل سے گناہ گار ہوئی ہے اس کے  لیے  واجب ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کرے اور آئندہ کے  لیے  ایسا کرنے سے رک جائے۔ ۔۔۔شیخ ابن عثیمین۔۔۔

ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ برائے خواتین

نكاح،صفحہ:188

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ