سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(174) مسلمان عورت کا عیسائی سے نکاح کرنا

  • 22240
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 868

سوال

(174) مسلمان عورت کا عیسائی سے نکاح کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مسلمان عورت کا کسی عیسائی سے نکاح کرنے کا شرعا کیا حکم ہے؟ اور اس شادی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اولاد کا کیا حکم ہے؟ نیز اس نکاح کے مختار (نکاح خواں) کے متعلق کیا حکم ہے کہ جو اس شادی کی تکمیل کا سبب بنا اور اس بیوی کا کیا حکم ہے کہ جب اگر وہ اس نکاح کے بطلان سے آگاہ بھی ہو؟ کیا عورت پر شرعی حد قائم کی جائے گی یا نہیں؟ اگر نکاح کے بعد خاوند مسلمان ہو جائے تو پہلے نکاح کا کیا حکم ہو گا؟ اور پھر نیا نکاح کیسے ہو گا؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مسلمان عورت کا عیسائی یا کسی بھی کافر مرد سے نکاح کرنا حرام ہے۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

(وَلَا تُنكِحُوا الْمُشْرِكِينَ حَتَّىٰ يُؤْمِنُوا ۚ ) (البقرہ 2؍221)

’’ اور مشرکوں کے نکاح میں مسلمان عورتیں نہ دو یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں ۔‘‘

نیز فرمایا:

(لَا هُنَّ حِلٌّ لَّهُمْ وَلَا هُمْ يَحِلُّونَ لَهُنَّ ) (الممتحنہ 60؍10)

’’ وہ (مومن) عورتیں ان کافروں کے  لیے  حلال نہیں، اور نہ وہ (کافر) ان مومن عورتوں کے  لیے  حلال ہیں ۔‘‘

اگر ایسا نکاح ہو جائے تو اس کا فسخ فورا واجب ہے، اگر عورت کو اس نکاح اور اس کے شرعی حکم کا علم تھا تو وہ واجب تعزیر ہے اسی طرح ولی، گواہ اور نکاح خواں (نکاح رجسٹرار) اس نکاح کے شرعی حکم سے آگاہ ہونے کی صورت میں واجب تعزیر ہوں گے۔ اس نکاح کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اولاد اسلام میں ماں کے تابع ہو گی، اگر نکاح کے بعد خاوند مسلمان ہو جائے اور اس کے حسن اسلام کا یقین ہو جائے تو نکاح دوبارہ ہو گا۔ حسن اسلام کی شرط اس  لیے  ہے کہ کہیں وہ اسلام کو نکاح کے  لیے  بطور حیلہ کے استعمال نہ کرے اور اگر وہ اس کے بعد مرتد ہو جائے تو  واجب القتل ہے۔ جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(مَنْ بَدَّلَ دِينَهُ فَاقْتُلُوهُ)  (البخاری، کتاب الجھاد باب 149)

’’ جو شخص دین اسلام سے مرتد ہو جائے اسے قتل کر دو ۔‘‘ شیخ ابن جبرین

ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ برائے خواتین

نكاح،صفحہ:186

محدث فتویٰ

تبصرے