السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں نے ایک رسالے میں ایک عالم کا یہ فتویٰ پڑھا کہ عورت پر خاوند کی خدمت کرنا قطعا واجب نہیں ہے، اس کا نکاح صرف جنسی خواہشات کی تکمیل کے لیے ہے، اگر عورت خاوند کی خدمت بجا لاتی ہے تو یہ حسن معاشرت کا ایک حصہ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر عورت خاوند کی خدمت نہیں کرنا چاہتی یا کسی وجہ سے وہ اپنی خدمت بھی نہیں کر سکتی تو اس کے لیے ملازم رکھنا خاوند کی ذمہ داری ہے۔ کیا یہ صحیح ہے؟ اور اگر صحیح نہیں تو بحمداللہ یہ رسالہ کثیر الاشاعت نہیں ہے، بصورت دیگر جو بعض عورتیں یہ فتویٰ پڑھیں گی تو ان کے خاوند تنہائی کا شکار ہو کر رہ جائیں گے۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ فتویٰ نہ تو صحیح ہے اور نہ اس پر کسی کا عمل ہے۔ صحابیات رضی اللہ عنھن اپنے خاوندوں کی خدمت کیا کرتی تھیں جیسا کہ اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہا نے اپنے خاوند زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کی خدمت کا تذکرہ کیا ہے، اسی طرح سیدہ فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا بھی اپنے خاوند حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں مصروف رہتی تھیں، اس کے علاوہ بھی کئی شواہد موجود ہیں۔ حالات کی مناسبت سے مسلمان معاشرے کا شروع سے یہ عرف رہا ہے کہ بیوی اپنے خاوند کی عمومی خدمات بجا لایا کرتی ہے مثلا کھانا پکانا، کپڑے دھونا، برتن صاف کرنا، گھر کی صفائی ستھرائی کا خیال رکھنا، اس کے علاوہ کھیتی باڑی کے ماحول میں جانوروں کو پانی پلانا اور ان کا دودھ دوھنا وغیرہ۔ یہ ایک ایسا مشہور عمل ہے جس پر بغیر انکار کے عہد نبوی سے لے کر آج تک عمل رہا ہے، ہاں عورت کو ایسے امور کی انجام دہی کا مکلف نہیں بنانا چاہیے جو اس کے لیے باعث مشقت ہوں، وہ اپنی بساط اور عام عادت کے مطابق ہی خاوند کی خدمت بجا لانے کی پابند ہے۔
ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب