سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(161) بوقت نکاح طے شدہ شرائط کا پورا کرنا لائق تر ہے

  • 22227
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 654

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بوقت نکاح بیوی نے اگر خاوند سے یہ شرط رکھی کہ وہ شادی کے بعد اسے پڑھانے سے منع نہیں کرے گا اور اس شرط پر خاوند کی موافقت کے بعد عورت اس سے شادی پر راضی ہو گئی۔ کیا اس صورت میں کہ بیوی ملازمہ ہے، اس پر اپنے خاوند اور بچوں کا نان و نفقہ لازم ہے؟ اور کیا خاوند بیوی کی رضامندی کے بغیر اس کی تنخواہ میں سے کچھ لینے کا مجاز ہے؟ اور جب عورت دین دار ہو اور وہ موسیقی اور گانا بجانا سننا نہ چاہتی ہو لیکن خاوند اور اس کے گھر والے گانے سننے پر مصر ہوں اور یہ کہیں کہ گانے نہ سننے والا وسوسوں میں مبتلا کرتا ہے، تو کیا ان حالات میں عورت کو خاوند کے گھر والوں کے ساتھ رہنا چاہیے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جب عورت نے نکاح کے  لیے  یہ شرط رکھی کہ مرد اسے تعلیم و تعلم سے نہیں روکے گا، اور اس نے یہ شرط قبول کرتے ہوئے شادی کر لی تو ایسی شرط صحیح ہے اور بیوی سے ہم بستری کر لینے کے بعد خاوند کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اسے اس سے روکے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

(إِنَّ أَحَقَّ الشُّرُوطِ أَنْ يُوفَى بِهَا مَا اسْتَحْلَلْتُمْ بِهِ الْفُرُوجَ)  (متفق علیہ)

’’ جن شروط کے نتیجے میں تم نے شرمگاہوں کو حلال سمجھا ان شرطوں کا پورا کرنا لائق تر ہے ۔‘‘

اگر خاوند شرط کے مطابق بیوی کو کام کرنے سے روکتا ہے تو عورت کو اس امر کا اختیار حاصل ہے کہ وہ اس کے پاس رہے یا شرعی عدالت سے فسخ نکاح کا مطالبہ کرے۔ جہاں تک خاوند اور اس کے گھر والوں کا موسیقی سننے سے تعلق ہے تو ان کے اس عمل سے نکاح فسخ نہیں ہو گا، عورت خیرخواہی کے پیش نظر ان لوگوں کو اس کی تحریم کے حکم سے آگاہ کرے اور خود ایسی منکرات سے کنارہ کش رہے۔ اس  لیے  کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(الدِّينُ النَّصِيحَةُ) (صحیح مسلم)

’’ دین خیرخواہی کا نام ہے ۔‘‘

اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(مَنْ رَأَى مِنْكُمْ مُنْكَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ، وَذَلِكَ أَضْعَفُ الْإِيمَانِ) (صحیح مسلم)

’’ تم میں سے جو شخص برائی کو دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ سے روکے، اگر اس کی طاقت نہ ہو تو زبان سے روکے اور اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو دل سے ایسا کرے (یعنی دل میں برا سمجھے) اور یہ کمزور ترین ایمان ہے ۔‘‘

اس موضوع سے متعلق بہت سی آیات اور احادیث نبوی موجود ہیں۔

بیوی بچوں کے اخراجات کی ذمہ داری خاوند پر ہے، وہ بیوی کی مرضی کے بغیر اس کے مال سے کچھ بھی لینے کا اختیار نہیں رکھتا، جیسا کہ عورت بھی خاوند کی مرضی کے بغیر اس کے گھر سے اپنے والدین یا کسی اور کے گھر نہیں جا سکتی۔

ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ برائے خواتین

نكاح،صفحہ:175

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ