السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک رواج سا بن گیا ہے کہ لڑکی یا اس کے باپ لڑکے والوں کی طرف سے منگنی کا پیغام اس عذر کی بناء پر رد کر دیتے ہیں کہ ابھی لڑکی کو ثانوی یا یونیورسٹی کی سطح تک تعلیم مکمل کرنی ہے یا اسے مزید چند سال زیر تعلیم رہنا ہے، اس طرح بعض لڑکیاں تیس برس یا اس سے بھی زائد عمر تک پہنچ جاتی ہیں۔ اس بارے میں شرعی حکم کیا ہے، آپ انہیں کیا کہنا چاہیں گے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
تمام نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو ہماری نصیحت ہے کہ اسباب زواج میسر آنے پر فورا شادی کر لینی چاہیے، اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ، مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمُ الْبَاءَةَ، فَلْيَتَزَوَّجْ، فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ، وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ، فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ، فَإِنَّهُ لَهُ وِجَاءٌ) (متفق علیه)
’’ اے نوجوانو! تم میں سے جو شادی کی طاقت رکھتا ہو وہ شادی ضرور کرے، اس لیے کہ شادی باعث شرم و حیا اور باعث عصمت ہے، اور جو کوئی شادی کی طاقت نہ رکھتا ہو تو وہ روزے رکھے کہ وہ جوانی کے جذبات کو کنٹرول کرنے کا باعث ہیں ۔‘‘
دوسری حدیث میں ہے:
(إِذَا خَطَبَ إِلَيْكُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ دِينَهُ وَخُلُقَهُ فَزَوِّجُوهُ، إِلاَّ تَفْعَلُوا تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الأَرْضِ، وَفَسَادٌ كبير) (سنن ترمذی بسند حسن)
’’ جب تمہیں ایسا شخص نکاح کا پیغام دے جس کے دین اور خلق کو تم پسند کرتے ہو تو اسے رشتہ دے دو، اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں فتنہ اور بہت بڑا فساد برپا ہو گا ۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا ایک اور ارشاد ہے:
(تَزَوَّجُوا الْوَلُودَ الْوَدُودَ، فَإِنِّي مُكَاثِرٌ بِكُمُ الْأُمَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ) (مسند احمد و صحیح ابن حبان)
’’ زیادہ بچوں کو جنم دینے والی اور محبت کرنے والی عورتوں سے شادی کرو تحقیق میں تمہاری وجہ سے دوسری امتوں پر قیامت کے دن فخر کروں گا ۔‘‘
شادی اس لیے بھی جلدی کرنی چاہیے کہ اس میں بے شمار مصلحتیں ہیں جن سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آگاہ فرمایا ہے۔ مثلا یہ کہ اس سے نگاہ جھک جاتی ہے، عزت و آبرو محفوظ رہتی ہے اور افراد ملت اسلامیہ کی کثرت ہوتی ہے اور بڑی خرابیوں اور ان کے بھیانک نتائج سے تحفظ و سلامتی کی ضمانت فراہم ہوتی ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو اس بات کی توفیق عطا فرمائے جس میں ان کے دینی اور دنیوی امور کی درستی ہو۔
ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب