سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(154) خاندانی منصوبہ بندی کا حکم

  • 22220
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 726

سوال

(154) خاندانی منصوبہ بندی کا حکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

خاندانی منصوبہ بندی کا کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

خاندانی منصوبہ بندی موجودہ  دور کا اہم ترین مسئلہ ہے، اس بارے میں متعدد سوالات اس وقت ہمارے سامنے ہیں۔ ممتاز علماء کے بورڈ (کمیٹی) نے اپنے گذشتہ اجلاس میں اس موضوع کا بغور جائزہ لیا اور اپنے علم کی روشنی میں جو بہتر سمجھا قرار دیا، ان فیصلہ جات کا خلاصہ یہ ہے کہ مانع حمل گولیوں کا استعمال ناجائز ہے، وہ اس  لیے  کہ اللہ تعالیٰ نے نسل انسانی اور امت مسلمہ میں اضافے کے اسباب کو اپنانا مشروع قرار دیا ہے، نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی بھی ہے کہ:

(تَزَوَّجُوا الْوَلُودَ الْوَدُودَ، فَإِنِّي مُكَاثِرٌ بِكُمُ الْأُمَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ) (رواہ ابوداؤد فی کتاب النکاح باب 4 والنسائی)

’’ محبت کرنے والی اور زیادہ بچوں کو جنم دینے والی عورتوں سے شادی کرو تحقیق میں روزِ قیامت تمہاری وجہ سے دوسری امتوں پر فخر کروں گا ۔‘‘

دوسری روایت میں ہے:

(اْلأنْبِيَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ) (رواہ احمد جلد 3 ص 158)

’’ قیامت کے دن دوسرے انبیاء پر فخر کروں گا ۔‘‘

نیز اس  لیے  بھی کہ امت مسلمہ کو افرادی قوت کی ضرورت ہے تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کی بندگی کا فریضہ سر انجام دے سکیں، اعلاء کلمۃ اللہ کی خاطر فی سبیل اللہ جہاد کریں، اور کفار کی مکاریوں سے مسلمانوں کے تحفظ کا فریضہ سر انجام دے سکیں، لہذا ضرورت کے علاوہ ایسی گولیوں کا استعمال نہیں کرنا چاہیے، اگر کوئی ضرورت ہو مثلا یہ کہ عورت کے رحم میں کوئی ایسی بیماری ہے کہ جس کی بناء پر حمل نقصان دہ ہو سکتا ہے، یا اسی طرح کی کوئی اور بیماری ہے تو ایسے حالات میں بقدر ضرورت ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اسی طرح پہلے سے موجود بچوں کی کثیر تعداد کے پیش نظر اگر حمل نقصان دہ ہو تو ایک معین وقت مثلا سال، دو سال (دودھ پلانے کی مدت) تک ایسی گولیاں استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں، تاکہ عورت کے  لیے  مشکلات میں کمی ہو سکے اور وہ مناسب انداز میں بچوں کی تربیت کر سکیں۔ اگر مانع حمل گولیوں کا استعمال صرف اس مقصد کے تحت ہو کہ ملازمت کے  لیے  فراغت میسر آ سکے یا کم بچے خوشحالی کا باعث ہوں گے یا ان جیسا کوئی اور معاملہ ہو جیسا کہ آج کل ہو رہا ہے، تو یہ قطعا ناجائز ہے۔ ۔۔۔شیخ ابن باز۔۔۔

ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ برائے خواتین

نكاح،صفحہ:167

محدث فتویٰ

تبصرے